آج کل اگر کسی سے پوچھا جائے کہ وہ اسلام کے کس درجے پر ہے تو بہت سارے لوگوں کا جواب ہوتا ہے، ماڈریٹ مسلمان۔ یہ ماڈریٹ مسلمان کون ہیں اس کا مظاہرہ ہم نے پاکستان ڈے کے فنکشن میں نہ صرف دیکھا بلکہ جانا کہ ہم بھی ماڈریٹ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ ہم بھی تقریب کے آخر تک وہاں موجود رہے۔

ایک بات تو یہ ہے کہ موجودہ اکثر پاکستانیوں کی طرح ہمارے علاقے میں بھی پاکستانی دو حصوں میں بٹ چکے ہیں اور ایک ہی نام سے ان کی دو ایسوسی ایشنیں ہیں جیسا کہ مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق۔ ایک کا فنکشن یکم اگست کو ہوا اور دوسری کا فنکشن پندرہ اگست کو ہے اور دونوں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔

ماڈریٹ مسلمانوں کے فنکشن کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا اور اس کے بعد نعت رسول پڑھی گئی۔ اس دوران مخلوط اجتماع میں عورتوں نے احترام سے اپنے سر ڈھانپ لیے۔ ابھی سامعین نعت کے سحر سے باہر بھی نہیں نکل پائے تھے اور عورتوں نے سروں سے دوپٹے بھی نہیں اتارے تھے کہ سٹیج پر بینڈ باجے کی آوازیں آنے لگیں۔ کلاسیکل گائیک رفاقت علی کو سٹیج پر بلایا گیا اور اس نے خوب محفل جمائی بلکہ سامعین میں آ کر ایک دو خواتین کیساتھ مل کر بھی گایا۔

اس کے بعد پاکستانی ڈانسر مونا لیزا کو سٹیج پر بلانے سے پہلے اعلان کیا گیا کہ خواتین اپنے مردوں پر نظر رکھیں کیونکہ مونا لیزا ان کے ہوش اڑانے والی ہے۔ مونا لیزا جو سٹیج کی ڈانسر ہے پاکستانی اور انڈین فلموں میں بھی کام کر چکی ہے۔ اس کی فلم کجرارے اکتوبر میں ریلیز ہونے والی ہے۔ اس نے کلاسیکل ڈانس سے شروعات کی اور مغربی ڈانس پر اختتام کیا۔  پندرہ منٹ کے اس مجرے نے واقعی مرد حضرات کو مدہوش کر دیا۔ اس دوران اس نے سبھی کچھ کیا جو سٹیج ڈانس میں ہوتا ہے۔ مرد ڈانس سے اتنے خوش ہوئے کہ تلاوت کرنے والے مولوی بھی ناچنے لگے اور ایک فنکار کو کہنا پڑا کہ لگتا ہے مولوی صاحب سیدھے روات سے ادھر آئے ہیں۔

مونا لیزا کے جانے کے بعد انہیں دوبارہ سٹیج پر بلانے کی کوشش کی گئی مگر وہ نہ آئی کیونکہ ناچنے سے اس کے بال بکھر گئے تھے اور انہیں باندھنے میں دیر ہو گئی۔ مرد حضرات خیالوں میں مونا لیزا کا جسم ابھی پوری طرح ٹٹول بھی نہ پائے تھے کہ سٹیج سے اذان کی آواز آنے لگی اور لوگ وضو کرنے دوڑ پڑے۔ نماز مغرب کیلیے بیس منٹ کا وقفہ کیا گیا اور لوگوں نے باجماعت نماز ادا کی۔

نماز کے بعد نوجوانوں کے گلوکار ہارون کو سٹیج پر بلایا گیا پھر کیا تھا نوجوان لڑکیوں نے وہ اودھم مچایا کہ ہارون کو انعام میں انہیں اپنی سی ڈی کی کاپیاں بانٹنا پڑیں۔ لڑکے لڑکیوں نے مل کر سٹیج کے سامنے ڈانس کیا، عورتوں نے فضا میں ہاتھ ہلائے اور بچوں نے بھنگڑا ڈالا۔ دو چھوٹی بچیوں کو تو ان کے والدین نے سٹیج پر چڑھا دیا اور وہ باقاعدہ انڈین فلموں کے ڈانسرز کی کاپی کرنے لگیں۔

آخر میں مولوی کو دوبارہ سٹیج پر بلایا گیا جس نے اسلام اور پاکستان کیلیے دعائے خیر اور دشمنوں کی تباہی کی دعا مانگی اور ماڈریٹ مسلمان اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔ اس طرح منتظمین نے تقریب کو تلاوت قرآن سے شروع کر کے  بیوقوف مسلمانوں کے ووٹ بھی بچا لیے اور تفریحی پروگرام سے منچلوں کے دل بھی جیت لیے۔

کیا خیال ہے ایسے میوزیکل پروگرام کو تلاوت اور نعت سے شروع کرنا کیا ضروری تھا؟