اب پتہ نہیں یہ انجمن حمایت اسلام تھی یا کوئی اور مگر ہمیں اتنا یاد ہے کہ ہمارے اسلامیہ ہائی سکول کو انجمن والے چلاتے تھے۔ سنا ہے ان کے کئی سکول پنجاب کے دوسرے حصوں میں بھی موجود تھے۔ جو کہانی ہم بیان کرنے جا رہے ہیں اسے آپ بھٹو کے سکول قومیانے سے پہلے اور بعد کا موازنہ کہ سکتے ہیں۔

اسلامیہ ہائی سکول۔

شہر کے کونے پر کھلی فضاؤں میں بہت بڑے زمین کے رقبے پر سکول بنا ہوا تھا۔ اتنا بڑا کہ اس کے اپنے ہاکی اور کرکٹ کے میدان تھے۔ ایک جماعت کے چار پانچ سیکشن اور ہر سیکشن میں سو سے زیادہ طالبعلم۔ اس وقت پاکستان کی معاشی حالت اچھی تھی اور والدین آسانی سے پرائیویٹ  سکول کی فیس بھر دیا کرتے تھے۔ سکول میں لگے آم اور امرود کے درخت اتنے زیادہ تھے کہ ہم اور ہمارے محلے دار صرف پھل چننے کیلیے سکول سب سے پہلے پہنچ جایا کرتے تھے۔

سکول کا بہت بڑا گیٹ تھا، گیٹ کے بائیں طرف سکول کے بینڈ کا کمرہ تھا جہاں صبح ہی سے لڑکے اپنے اپنے انسٹرومنٹ کی پریکٹس کر رہے ہوتے تھے۔ ان کی وردیوں کو دیکھ کر ہر کسی کا دل للچاتا تھا کہ وہ اس بینڈ کا حصہ بنے۔ گیٹ کے سامنے والا درمیانی رستہ سو گز لمبا تھا جس کے آخر میں سکول کا ہال تھا۔ راستے میں دائیں طرف ہیڈماسٹر کا دفتر تھا جس کا پچھواڑا اسمبلی کے سٹِج سے جڑا ہوا تھا۔ ساتھ ہی اساتذہ کا مشترکہ کمرہ تھا۔ گیٹ کے بائیں طرف کلاس روم تھے۔ تمام کمروں کے سامنے باغیچے تھے جہاں پھولوں کے درمیان بینچوں پر بیٹھتے ہی رومانیت طاری ہو جایا کرتی تھی۔ ہیڈماسٹر کے دفتر کے سامنے کی راہداری انگور کی بیل سے ڈھکی ہوئی تھی جس کے نیچے سے گزر کر ایسے ہی لگتا تھا جیسے آدمی نے جنت کے باغ کی سیر کر لی ہو۔ داخلہ گیٹ کے دائیں طرف ٹیوب ویل لگا ہوا تھا اور ساتھ ہی وضو کیلیے ٹوٹیوں کی چار پانچ قطاریں تھیں۔ سکول کا اندرونی گراؤنڈ ہاکی، کبڈی، فٹبال، باسکٹ بال، جمناسٹک، جلسے اور پریڈ کے کام آتا تھا۔ باہر والا گراؤنڈ کرکٹ کیلیے مخصوص تھا۔

سکول کی گھنٹی بجنے سے پہلے یا ر لوگوں نے سکول کےکمروں میں آنکھ مچولی کھیلا کرنی یا پھر گھنے درختوں کے سایوں میں بیٹھ کر گپیں لگایا کرنی۔ سکول کی گھنٹی بجتے ہی اساتذہ حاضری لگانے کے بعد کلاسوں کو گراؤنڈ میں لے جاتے جہاں تلاوت، دعا اور پھر ہیڈماسٹر کی رپورٹ کے بعد بینڈ کی دھن پر تمام کلاسیں مارچ کرتے ہوئے گراؤنڈ کا چکر لگانیں۔ ہر پیریڈ آدھے گھنٹے کا ہوتا تھا اور اساتذہ اتنی دلجمعی سے پڑھاتے تھے کہ ایسے لگتا جیسے وہ ہمارے مائی باپ ہوں۔ دلجمعی سے پڑھاتے بھی کیوں ناں، جن کا نتیجہ خراب آتا اگلے سال ان کی چھٹی ہو جایا کرتی تھی۔

سال میں ایک دفعہ ہفتہ کھیل منایا جاتا تھا۔ تقاریر، ڈرامے، نعتیں جلسوں میں سن کر بہت مزہ آتا تھا۔ پھر کبڈی، ہاکی، فٹبال، دوڑیں، سائیکل ریس وغیرہ اتنے جاندار ہوتے کہ تپتی دھوپ کے بوجود پتہ بھی نہ چلتا اور ہفتہ گزر جاتا۔ کبڈی میچ کی کمنٹری ہمارے تاریخ کے استاد کیا کرتے تھے جو ریٹائرڈ فوجی تھے۔ جب کوئی کھلاڑی پوائنٹ سکور کرتا تو ان کی داد کا انداز دیکھنے والا ہوتا تھا۔

ہمارے انگریزی کے استاد لکھنو کے ریئس تھے ان کا لباس پورے سکول میں مثالی ہوتا تھا۔ وہ پنجابی نہیں بول سکتے تھے اور ہفتہ کھیل کا ایک آئیٹم ان سے پنجابی کے دو بول سننا ہوتا تھا۔ وہ اتنے نفیس تھے کہ سزا بھی ایسے دیتے تھے جیسے پیار کر رہے ہوں۔

آٹھویں اور دسویں کے امتحانات سے پہلے نہ صرف سپیشل کلاسز ہوا کرتی تھیں بلکہ اساتذہ اپنا اپنا پرچہ شروع ہونے سے پہلے طلبا کو ہدایات دینے کمرہ امتحان کے باہر پہنچے ہوتے تھے۔ اس وقت ایک دو اساتذہ کے سوا کوئی بھی ٹیوشن نہیں پڑھایا کرتا تھا۔

گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول

بھٹو کے سکول قومیاتے ہی سب سے پہلے اساتذہ آزاد ہو گئے کیونکہ اب ان کی نوکریاں پکی ہو چکی تھیں۔ گورنمنٹ کی فنڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے بینڈ باجے، کھیلوں کا سامان اور لیبارٹری کے کیمیکل آہستہ آہستہ غائب ہونا شروع ہو گئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہیڈماسٹر کو طلبا سے معاشی امداد کی اپیل کرنا پڑی۔ مگر بعد کے ہیڈماسٹروں نے اپنے اپنے گھر بھرنے کیلیے ان تعلیمی گہواروں کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ تعلیمی معیار گر گیا اور سکول کھنڈرات کا نقشہ پیش کرنے لگے۔ بعض ہیڈماسٹروں نے تو باقاعدہ سکول کی لکڑی اور اینٹیں بھی بیچ دیں۔ باغ اجڑ گئے، ٹیوب ویل بند ہو گیا اور وضو کی ٹوٹیاں غائب ہو گئیں۔ وہ گراؤنڈ جہاں سے باقاعدہ طلبا پتے چن کر صفائی کیا کرتے تھے مٹی کی دو دو انچ دھول میں اٹ گئے۔

ہومیوپیتھک ڈاکٹر کی چھٹی کے بعد ڈسپنسری بند ہو گئی۔ مکینیکل اور الیکڑیکل کی ورکشاپس خالی ہو گئیں اور ان کی مشینری اور اوزار دنوں میں غائب ہو گئے۔ بورڈنگ جہاں دور کے علاقوں کے طلبا رہا کرتے تھے بند کر دی گئی۔

پچھلے سال ہم سکول دیکھنے گئے تو اسے ایسے ہی پہچان نہ سکے جیسے ہم اپنے ہمجولی کو پہچان نہ پائے جو غربت اور بڑھاپے کی وجہ سے مہاتمہ بدھ کے مجسمے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ بھٹو نے سکول قومیا کر تعلیم تو مفت کر دی مگر سکولوں کا ستیا ناس کر دیا۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلیے اب بہت سارے پرائیویٹ سکول دوبارہ کھل چکے ہیں مگر ان کی فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ یہ عام آدمی بڑی مشکل سے ادا کر پاتا پے۔