الفاظ کا ہیر پھیر صحافتی ہی نہیں بلکہ سیاسی میدانوں میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ابھی کل کے کالم میں عباس اطہر صاحب نے سقوطِ ڈھاکہ میں شکست کی بجائے سقوط کا لفظ استعمال کرنے کا نقطہ اٹھایا ہے۔ بات تو سچ ہے یہ شکستِ ڈھاکہ ہونا چاہیے تھا مگر ہماری اس وقت کی حکومت نے لوگوں کو بیوقوف بنانے کیلیے سقوطِ ڈھاکہ متعارف کرایا۔

اسی طرح جب سے پاکستان دہشت گردی کی پرائی آگ میں کودا ہے حکومت نے فوج کا لفظ حساس ادارے سے بدل دیا ہے۔ اب میڈیا میں جب بھی کسی فوجی کے مرنے یا اس کے حادثے کی خبر نشر ہوتی ہے تو فوجی کی بجائے حساس ادارے کا ملازم استعمال کر کے لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی کی جب بھی حکومت آتی ہے خوراک کا بحران پیدا ہو جاتا ہے۔ بھٹو نے راش ڈپو کا نظام متعارف کرا کے جیالوں کو نوازا اور عام آدمی کو لائن میں لگا دیا۔ آج کل راشن ڈپو کی جگہ یوٹیلٹی سٹور نے لے لی ہے۔ جو لائنیں اس وقت راشن ڈپو کے سامنے لگا کرتی تھیں وہی لائنیں اب یوٹیلٹی سٹور کے سامنے لگنے لگی ہیں۔

بھٹو نے سب سے پہلے سوشلزم کا نعرہ لگایا اور جب دیکھا کہ مسلم معاشرے میں اس کا ردِعمل شدید ہوا ہے تو اسے اسلامی سوشلزم کا نام دے دیا۔ پرویز مشرف کو جب کہا گیا کہ معاشرے سے رہی سہی اسلامی اقدار کا خاتمہ کرو تو اس نے لادینیت کی بجائے اعتدال پسندی اور روشن خیالی کے الفاظ متعارف کرا کے اپنے آقاؤں کی خواہش پوری کر دی۔

الفاظ کے ان گورکھ دھنوں کے پیچھے کوئی بہت بڑا ذہن کام کر رہا ہوتا ہے اور یہ ذہن ہمارے حکمرانوں کا تو ہو نہیں سکتا. اس کے پیچھے لازمی کسی ترقی یافتہ قوم کے ملازمین کا ذہن چل رہا ہوتا ہے جو جانتے ہیں کہ کس قوم کو کیسے بیوقوف بنانا ہے۔