کامیاب ہفتہ بلاگستان کا آخری موضوع ٹیکنالوجی ہے۔ امید ہے سب لوگ اظہارِ خیال کریں گے کیونکہ اس موضوع پر ہمیں بہت سا مواد مل جائے گا۔ جہاں تک ہم ہیں تو ہم ٹیکنالوجی کی ترقی میں پاکستان اور مسلمانوں کے حصے پر اظہارِ خیال کریں گے۔

جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ہمارے عالمِ دین اور حکمران ہمیشہ یادِ ماضی پر اظہارِ خیال کر کے خود بھی خوش ہوتے رہے ہیں اور سامعین کو بھی خوش کرتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی بات کرتے ہیں تو نبی پاک صلعم کے دور سے ہوتے ہوئے پہلے چار خلفائے راشدین اور پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے پر بات ختم کردیتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور مسلمانوں کا دنیاوی ترقی میں حصہ کہیں نظر نہیں آتا۔

پاکستان کی تاریخ کی اگر بات ہو تو ہم قائداعظم اور لیاقت علی خان سے آگے بڑھ نہیں پاتے۔ اگر ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو پاکستان کا کہیں بھی نام نہیں آتا سوائے ایٹم بم بنانے کے لیکن یہ بھی کوئی نئی ایجاد نہیں ہے بلکہ ویسی ہی چرائی ہوئی ہے جیسے امریکہ نے جرمنی کے سائنسدان کو امریکہ شفٹ کرا کے ایٹم بم بنایا تھا۔

پچھلے دو سو سال میں ٹیکنالوجی نے جتنی ترقی کی ہے اتنی ترقی نوعِ انسانی کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ اس ساری ترقی میں کہیں بھی مسلمانوں اور پاکستانیوں کا حصہ نظر نہیں آتا۔ مسلمانوں نے بس اتنا کیا ہے کہ جو تیل ان کے علاقوں سے نکلا وہ یورپ کو اونے پونے داموں بیچ کر اسے ترقی کرنے کے قابل بنا دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ تیل بھی یورپی ٹیکنالوجی سے نکالا جا رہا ہے۔ اگر آج یورپ اپنی ٹیکنالوجی واپس لے لے تو عرب پھر صحرانوردوں والی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس تیل کی دولت کو عربوں نے ٹیکنالوجی پر خرچ کرنے کی چنداں کوشش نہیں کی۔ بس عرب دنیا میں محلات اور بڑی بڑی بلڈنگیں بنوائیں۔ تیل کی اس دولت کو نہ انہوں نے تعلیم پر خرچ کیا اور نہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر۔ عربوں کی آج حالت یہ ہے کہ وہ اسرائیل جیسے چھوٹے سے ملک کا مقابلہ مل کر بھی نہیں کر سکتے کیونکہ اسرائیل کے مقابلے میں عرب ٹیکنالوجی میں صفر ہیں۔ اگر عرب مسلمان تھوڑے سے بھی باشعور ہوتے تو تیل کی طاقت کے بل بوتے پر آج دوسری سپر پاور ہوتے۔

ہم مسلمانوں بشمول پاکستانیوں کا صرف یہ کام رہ گیا ہے کہ یورپ کی ایجادات کو استعمال کریں اور نئی ایجادات کا انتظار کرتے رہیں۔ ہم لوگ زیادہ سے زیادہ چھلانگ اگر لگائیں گے تو موجودہ ٹیکنالوجی کو کاپی کر لیں گے اور بعض اوقات تو عوام کو بیوقوف بنانے کیلیے اس کاپی شدہ ٹیکنالوجی کو ایجاد کا نام دے دیں گے۔ پچھلے پندرہ بیس سال میں الیکٹرونکس کی ترقی نے دنیا میں انقلاب پیدا کر دیا ہے مگر مسلمانوں کا حصہ اس میں صفر کے برابر ہے۔

اس ٹیکنالوجی کی دوڑ میں مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ سستی اور کاہلی ہے یعنی عوام نشئی لوگوں کی طرح حال مست اور مال مست ہیں انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ ان کے حکمران کس طرح ان کے مفادات بیچ رہے ہیں۔

دوسری بڑی وجہ حکمرانوں کی غلامی اور بے حسی ہے۔ مسلمان دنیا کے حکمران صرف اپنے پیٹ کی فکر میں پڑَ ہوئے ہیں انہیں مستقتبل کی فکر نہیں ہے۔ انہیں فکر ہے تو صرف اپنے اقتدار کی چاہے اس کیلیے انہیں اپنی ماں بہن، عوام اور اس سے بڑھ کر اپنے وطن کو ہی بیچنا پڑ جائے وہ بیچ دیں گے۔

تیسری بڑی وجہ مسلمان دشمن دنیا کا مسلمانوں کو پستی میں رکھنے کا مشن ہے اور اب تک وہ اس میں کامیاب بھی ہیں مگر ہم انہیں موردِ الزام نہیں ٹھہرائیں گے کیونکہ وہ جو بھی کر رہے ہیں اپنے مفادات کے تحفظ کیلیے کر رہے ہیں۔ مجرم تو مسلمان ہیں جو ان کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں اور زیادہ تر ابھی بھی تھرلڈ ورلڈ یعنی ترقی پذیر دنیا میں رہ رہے ہیں۔