امریکی معاشی بحران کی وجہ سے آج کل ہم پر اپنا کاروبار شروع کرنے کا جنون سوار ہے۔ اسی سلسلے میں رمضان سے پہلے ہم لبرٹی ٹیکس فرینچائز کے کنونشن میں حصہ لینے ڈیلس گئے تو جہاں ہم نے بہت ساری نئی باتیں سیکھیں وہیں ہمیں ایک کتاب بطور تحفہ دی گئی۔ کتاب تحفہ میں دینے کا ایک ہی سبب تھا کہ ہم نے اپنا کاروبار شروع کرنے کا جو ارادہ کیا ہے اس پر قائم رہیں۔

یہ کتاب نیویارک ٹائمز کے بہترین سیلر رابرٹ کیاسکی کی “رچ ڈیڈ پور ڈیڈ” ہے۔ اس کتاب میں نوکری اور کاروبار کا موازنہ کیا گیا ہے اور ظاہر ہے آخر میں اپنے کاروبار کے فائدے زیادہ گنوائے گئے ہیں کیونکہ مصنف کا کاروبار ہی ایجوکیشن سیمینار سے پیسہ کمانا ہے۔ یہ راز ہم پر آج کھلا جب ہم رچ ڈیڈ ایجوکیشن ڈاٹ کام کے فری سیمینار میں شرکت کرنے ہوٹل پہنچے۔ مقرر نے جہاں اپنے کاروبار کے فائدے گنوائے وہاں اس نے ایجوکیشن سیمینار میں شرکت پر زور بھی دیا جس کی فیس پہلے ایک ہزار بتائی گئی مگر آج رجسٹریشن کرانے والوں کو پچاس فیصد رعایت اور ایک ساتھی ساتھ لانے کی چھوٹ بھی دی۔

چاہے آپ نوکری کریں یا کاروبار یہ کتاب پڑھنے والی ہے۔ اس کتاب کے خاص خاص نقاط مندرجہ ذیل ہیں۔

نوکری میں پہلے ٹیکس کٹتا ہے اور پھر ہم خرچ کرتے ہیں جبکہ کاروبار میں پہلے ہم خرچ کرتے ہیں اور بچت پر ٹیکس دیتے ہیں۔

ہم لوگ آمدنی کیساتھ ساتھ اپنے اخراجات بڑھاتے رہتے ہیں اسے مصنف نے چوہے کی دوڑ سے تعبیر کیا ہے یعنی آدمی چوہے کی طرح دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔

امیر اور غریب آدمی کی سوچ میں یہ فرق ہوتا ہے کہ امیر آدمی اپنی بچت کو انویسٹ کرتا ہے مگر غریب آدمی اس بچت سے مزید ذمہ داریاں پال لیتا ہے۔

امیر آدمی خیرات ضرور کرتے ہیں اور خیرات کرنے سے دولت بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی [یعنی زکوٰۃ کا فائدہ بتایا گیا ہے]۔

تعلیم وہی حاصل کریں جو آمدنی کیلیے ضروری ہو۔

بچت جتنی جلدی شروع کریں گے آپ اتنے ہی امیر ہوں گے۔

امریکہ میں ریسیشن بارہ ماہ سے دو سال تک رہتا ہے اور اکانومی کا عروج پانچ سے چھ سال تک۔ ریسیشن میں انویسٹ کرو اور اکانومی کے عروج پر منافع کما کر اگلے ریسیشن کا انتظار کرنا شروع کر دو۔

انویسٹمنٹ کیلیے ریل اسٹیٹ اور سٹاک مارکیٹ بہترین چوائسز ہیں۔