آج ۹۱۱ کی پانچویں برسی ہے اور اس دیشت گردی کے اصل مجرمان ابھی تک پکڑے نہیں گۓ اور نہ ہی کسی کو سزا ہوئی ہے سواۓ ایک پاگل کے۔ اگر ہم چاہتے تو نامزد مجرمان کے عزیزو اقارب کو پکڑ کر سچ اگلوا سکتے تھے مگر ہم نے یہ دیسی طریقہ استعمال نہیں کیا

اب تو امریکہ کے کچھ سائینسدانوں نے بھی اس واقعے پر شک کا اظہار کرتے ہوۓ اسے اندرونی سازش قرار دیا ہے اور اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اب تک کی تحقیق کے مطابق کوئی بھی پاکستانی اس دہشت گردی کے واقع میں ملوث نہیں پایا گیا مگر اس واقع کی پاداش میں سب سے زیادہ سزا پاکستانیوں کو ملی ہے۔ ہائی جیکر کہتےہیں سعودی تھے مگر سب سے زیادہ پکڑ دھکڑ پاکستانیوں کی ہوئی اور ان کا عرصہ حیات اس قدر تنگ کردیا گیا کہ وہ امریکہ چھوڑنے پر مجبور ہوگۓ۔ رجسٹریشن کا جو ڈرامہ شروع ہوا اور جس جس پاکستانی نے بھی رجسٹریشن کروائی اسے ملک بدر کردیا گیا۔ اس کے علاوہ جتنے زیادہ پاکستانی ملک بدر ہوۓ کوئی اور غیرملکی نہیں ہوۓ۔

اگر امریکن پاکستانیوں کی تاریخ کھنگال کر دیکھی جاۓ تو دور دور تک ایک بھی پاکستانی دہشت گردی کے واقعے میں نہ تو ملوث پایا گیا اور نہ ہی آج تک کسی کو سزا ہوئی ہے۔ اس کے باوجود افغانستان سے لاتعدار پاکستانیوں کو گرفتار کرکے گٹمو کی جیل میں رکھا ہوا ہے اور کتنے ہی بے قصور پاکستانی بے چارے امریکہ کی جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں۔

 اس واقعے نے پاکستانیوں کو سب سے زیادہ کیوں متاثر کیا اس کی اصل وجوہات سے کوئی بھی واقف نہیں ہے مگر قیاس کی جاسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے سب سے زیادہ غیرملکی دہشت گرد پاکستان کی زمین سے پکڑے گۓ ہوں اسلۓ پاکستانی زیرِ عتاب آۓ ہوں۔ غیر ملکی جو پاکستان سے پکڑے گۓ وہ پاکستان میں نہیں رہتے تھے بلکہ افغانستان سے جنگ کے دوران بھاگ کر پناہ لینے آۓ تھے اور نہ ہی ان کے پاکستانیوں کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔

اس واقعے کے بعد میڈیا نے پاکستانیوں کو اتنا بدنام کیا کہ یورپ اور امریکہ میں پاکستانی ہونا ایک گالی بن گیا۔ اگر آپ کے پاس گرین پاسپورٹ ہے ، پاکستان میں پیدا ہوۓ ہیں یا پاکستانی ائیرلائن پر سفر کررہے ہیں تو آپ کی سپیشل چیکنگ ہوگی۔ آپ کو ایک مشکوک مسافر سمجھ کر سب سے الگ ٹریٹ کیا جاۓ گا اور کئ دفعہ تو لوگ آپ کو اسطرح گھوریں گے کہ آپ خوفزدہ ہوجائیں گے۔

لیکن ان ساری مشکلات کے باوجود پاکستانیوں کے حوصلے جوان ہیں اور انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اب بھی پاکستانی امریکہ ، کینیڈا اور یورپ میں اپنی محنت اور لگن سے لوکل اکانومی کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ ابھی بھی سینکڑوں پاکستانی ٹرانسپورٹ کے بزنس سے وابسطہ ہیں اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔

اس ۹۱۱ کے بعد امریکہ ، کینیڈا اور یورپ میں پاکستانیوں کی آمد میں کمی ضرور ہوئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی۔ کچھ پاکستانی اس خوف میں مبتلا ہیں کہ انہیں ایک دن اپنے ملک واپس بھیج دیا جاۓ گا۔ یہ سو سال پہلے تو ممکن تھا مگر اب ناممکن ہے۔ اب پاکستانی لوکل انڈسٹری کی ریڑھ کی ہڈی بن چکے ہیں اور لوکل حکومتیں یہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ پاکستانی اتنے بھی خطرناک نہیں جتنے میڈیا میں دکھاۓ جارہے ہیں۔ اب حکومتوں کے پاس اتنے ذرائع نہیں کہ وہ لاکھوں پاکستانیوں کو پکڑ کر جیلوں میں بند کردیں اور پھر ایک ایک کرکے واپس بھیجنا شروع کردیں۔ لوکل حکومتوں کو یہ بھی یقین ہے کہ پاکسانیوں کی دوسری نسل ان کی نسل ہوگی اور صرف انہیں موجودہ نسل سے نپٹنا ہے اور ان سے نپٹنے کا یہی طریقہ ہے کہ انہیں ڈرا دھمکا کر رکھا جاۓ مگر واپس نہ بھیجا جاۓ۔

اس ۹۱۱ نے پاکستانیوں اور مسلمانوں پر کچھ مثبت اثرات بھی چھوڑے ہیں۔ اب غیرملکوں میں مسلمان مزہب کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ اپنے امیج کو بہتر بنانے کیلۓ اور محتاط ہوچکے ہیں۔ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کی کوشش کررہےہیںتاکہ وہ اچھی زندگی گزار سکیں۔ اپنی آواز حکومت تک پہنچانے کی جستجو میں لگے ہوۓ ہیں اور ہر ایک کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ ہم اتنے خطرناک نہیں جتنا میڈیا دکھا رہا ہے۔

ابھی تک کتنے ہی واقعات ایسے ہوچکےہیں جن میں ۹۱۱ کے بعد شک کی بنا پر پاکستانیوں اور دوسرے مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا مگر بعد ميں جرم ثابت نہ ہونے پر چھوڑ دیا گیا۔ کسی کو کسی پل کی وڈیو بناتے ہوۓ گرفتارکیا گیا، کسی کو بہت سے موبائل فونوں کی موجودگی میں پکڑا گیا، کسی کو کمیونیکیشن ریڈیو برآمد ہونے پر دھر لیا گیا، کسی کو لوکل تنصیبات کے نقشے رکھنے پر جیل بھیجا گیا مگر بعد میں کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا کے مصداق سب کو چھوڑ دیا گیا۔

ہم پاکستانیوں کو یہی مشورہ دیں گے کہ وہ اس مشکل دور سے بالکل نہ گھبرائیں، اپنا دامن صاف رکھیں اور حلال روزی کما کر اپنے بچوں کو اس مقام پر پہنچا دیں جہاں وہ پاکستانیوں کے خراب شدہ امیج کو پھر سے بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اس سے پہلے اٹالین، یہودی، یونانی اور پولش اسی طرح کی آزمائشوں سے گزر چکے ہیں اور اب وہ اپنے اپنے علاقوں میں بہت مضبوط کمیونٹی ہیں اور ان کا لوکل اکنانومی کی ترقی میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اسلۓ مایوس نہ ہوں اور لگن سے اپنے مشن کی تکمیل میں لگے رہیں خدا ضرور آپ کی مدد کرے گا۔