پچھلے کئی دنوں سے حزبِ اختلاف نے اتنی قلابازیاں کھائی ہیں کہ اب ان کے بیانات کی سچائی پر شک ہونے لگا ہے۔ بیچاری حزبِ اختلاف کیا کرتی کچھ دنوں سے اتنے واقعات رونما ہوۓ ہیں کہ وہ بوکھلا کر رہ گئ ہے۔ پہلے بجٹ، پھر وزیرستان کی لڑائی، پھر بگٹی کا قتل اور اب حدود آرڈینینس۔ جو اپوزیشن پہلے ہی تفرقے کا شکار تھی اور بڑی مشکل سے جونہی ایک ایشو پر اکٹھی ہونے کی کوشش کرتی تو ساتھ ہی کوئی دوسرا ایشو آجاتا جس پر پھر سے نفاق پڑجاتا۔ یہ کریڈٹ حکومت کے حواریوں یعنی ڈاکٹر شیر افگن، محمد علی درانی اور وصی ظفر کو بھی جاتا ہے کہ انہوں نے حزبِ اختلاف کو جم کر کھیلنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اپوزیشن اگر ایک اینڈ پر جم کر کھیلنے کی کوشش کررہی ہوتی تو حکومت دوسرے اینڈ سے اس کا کھلاڑی بولڈ کردیتی۔

دراصل حزبِ اختلاف کے مفادات الگ الگ ہیں اور وہ بھی قومی نہیں بلکہ ذاتی مفادات ہیں۔ ایک طرف ایم ایم اے اگر حکومت بچانے کے چکرمیں ہے تو دوسری طرف پی پی پی حکومت سے ڈیل کرکے نیب کے کیس نپٹانا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ نون ابھی تک یہی فیصلہ نہیں کرسکی کہ وہ پی پی پی اور ایم ایم اے میں سے کس کا ساتھ دے۔

حزبِ اختلاف کے پاس ایک دو دفعہ اچھے مواقع آۓ تھے مگر انہوں نے ضائع کر دیۓ۔ سب سے پہلے تو جب بگٹی کا قتل ہوا تو حزبِ اختلاف کو اکٹھے ہو جانا چاہۓ تھا۔ وہ ابھی اکٹھے ہونے کی باتیں کر ہی رہے تھے کہ حکومت نے حدود آرڈینینس کو حقوقِ نسواں بل کا نام دے کر ایک اور شوشہ چھوڑ دیا۔ اب اگر حزبِ اختلاف سیانی ہوتی تو دونوں ایشوز کو الگ الگ رکھتی مگر وہ ایسا نہ کرسکی اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر حقوقِ نسواں بل کی طرف پڑ گئ۔ اب حکومت نے جزبات کو ٹھنڈا کرنے کیلۓ حقوقِ نسواں بل کو لٹکانا شروع کردیا ہے ۔ اگرچہ اس سے پہلے ڈاکڑ شیر افگن بل کو پچھلے سوموار کو پاس کرانے کی دھمکی دے چکے تھے مگر حکومت نے ہوش کے ناخن لۓ اور اس ابلتے ایشو کو موخر کرنا شروع کردیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ہم نے حزبِ اختلاف کو مشورہ دیا تھا کہ اگر اس نے حکومت کے خلاف تحریک چلانی ہی ہے تو اسے وہ ایشو اٹھانے پڑیں گے جو لوگوں کے دلوںپر اثر کریں۔ مثلأ گرانی، آرمی کا ریئل سٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہونا، لوگوں کو انصاف مہیا کرنا، پولیس کی اوور ہالنگ کرنا، چوری ڈاکے ختم کرنا اور آرمی کو سول اداروں سے باہر کرنا۔ مگر اپوزیشن نے کسی اہم ایشو کو پکڑنے کی بجاۓ اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے اپوزیشن کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔

اب بھی وقت ہے اگر اپوزیشن اپنے اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر ملک کی خاطر اکٹھی ہوجاۓ تو یہ حکومت کو چند دنوں میں ناکوں چنے چبا سکتی ہے مگر ہم اب بحیثیت قوم اس قدر پستی میں گر چکے ہیں کہ ہمیں سواۓ اپنے مفادات کے کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ فوج نے بڑے دھڑلے سے ہر سول ادارے پر قبضہ کر رکھا ہے اور مستقبل میں بھی اس کا بیرکوں میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ رہے فوج کے سول اور سیاستدان حواری تو وہ حکومت کا ساتھ دیتے رہیں گے کیونکہ ان کا کا ہی چڑھتے سورج کی پوجا کرنا ہے۔

کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن سارے ایشوز کو ایک طرف کرکے اگلے عام انتخابات ایک پلیٹ فارم سے لڑے۔ اگر اپوزیشن ایسا کرلے تو ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ موجودہ فوجی پٹھوؤں کا بوریا بستر گول ہوجاۓ گا۔ اگر انڈیا میں جنتا پارٹی بہت ساری جماعتوں کیساتھ ملکر اپنی ٹرم پوری کرسکتی ہے تو پھر ہماری اپوزیشں کیوں نہیں۔