پچھلے ایک سال سے ہمارے جاننے والے ٹورانٹو کینیڈا سے ایک فیملی کے بارے میں بتا رہے تھے کہ ان کی بھانجی کا داماد انہیں بہت تنگ کررہا ہے اور اب وہ اس لالچی داماد سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔

کہانی کچھ اس طرح سے شروع ہوتی ہے کہ ایک پاکستانی خاندان جو کینیڈا میں مستقل رہائش پزیر ہے اپنی بیٹی کے رشتے کی تلاش میں پاکستان گیا اور ادھر انہیں ایک لڑکا پسند آگیا جو آرمی میں کیپٹین تھا۔ یہ لوگ کھاتے پیتے تھے اور لڑکے کو بھی ان کی دولت اچھی لگی اور اس نے شادی کے بعد کپتانی پر لعنت بھیجی اور وہ بھی کینیڈا آگیا۔ اب آپ کو معلوم ہے کہ سوکھی کپتانی یورپ میں کسی کام کی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے تجربے کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ لڑکے نے ادھر ادھر فضول ایک کے بعد دوسری نوکری پر جانا شروع کردیا۔ساتھ ہی لڑکی والوں نے اس کے گھر کے اخراجات پورے کرنے کیلۓ اسے مالی امداد دینا شروع کردی۔ اس کے سسرال والوں اور بیوی نے بھی بہت سمجھایا کہ کوئی پرفیشنل ڈگری حاصل کر لو مگر چونکہ اسے سسرال والوں سے مستقل مدد مل رہی تھی اسلۓ وہ مزید محنت سے آنکھیں چرانے لگا اور کام کاج چھوڑ کر گھر بیٹھ گیا بلکہ بیکار گھر جوائی بن گیا۔ پہلے اس کے سسرال والوں نے اسے ایک اپارٹمنٹ خرید کر دیا پھر ایک کار بھی لے دی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو ضرورت کی ہر چیز خرید دی۔ لڑکے نے جب دیکھا کہ سسرالی تو ڈرپوک ہیں اور بناں چوں چراں کۓ اس کی ضروریات پوری کر رہے ہیں تو اس نے روزاپنی بیوی کو تنگ کرکے مزید ڈیمانڈز کرنا شروع کر دیں۔ اس دوران وہ ایک بچی کا باپ بھی بن چکا تھا۔ سسرال والے آخرکار تنگ آگۓ اور اس کی ڈیمانڈز کو نظر انداز کرنا شروع کردیا۔ جب کپتان نے یہ دیکھا تو اس نے اپنی بیوی کو کچھ زیادہ ہی تنگ کرنا شروع کردیا۔

اس دوران اس نے “صرف” اپنی بیوی کی لائف انشورنس بھی کرالی اور اسے پاکستان واپس جانے پر مجبور کرنے لگا۔ لڑکی کے والدین کو اس کی نیت پر شک گزرا کہ کہیں انشورنس کے چکر میں وہ اپنی بیوی کو ہی نہ مار دے اسلۓ انہوں نے لڑکی کو پاکستان جانے سے منع کر دیا۔

جب معاملہ لڑکی والوں کے بس سے باہر ہوگیا تو لڑکی والوں نے طلاق کا مطالبہ شروع کردیا۔ اس کا جواب یہ تھا کہ وہ ان کی لڑکی واپس کردیتا ہے اگر وہ اس کی کپتانی واپس لوٹا دیں جو وہ ان کی خاطر چھوڑ کر کینیڈا آیا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ اب سسرالیوں کا مزید تیل نچوڑنا مشکل ہورہا ہے تو اس نے بیوی کو یہ دھمکی دینا شروع کردی کہ اگر اس کے والدین نے اس کی دوبارہ مالی مدد شروع نہ کی تو وہ ایسی چال چلے گا کہ اس کے گھر والے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ جب لڑکی والے ٹس سے مس نہ ہوۓ تو ایک دن وہ پولیس سٹیشن گیا اور اپنے سسرالیوں کے خلاف چوری کا مقدمہ درج کرا آیا۔ اس نے چوری کی رپورٹ میں اپنے گھر کا سارا زیوراور اپنی رولیکس گھڑی لکھوا دی۔ پولیس سسرالیوں کے گھر آئی ان سے ساری معلومات اکھٹی کیں اور چوری کی برآمدگی کرنےکی کوشش کی۔ جب پولیس والوں کو تھوڑی سی حقیقت کا اندازہ ہوا تو انہوں نے لڑکے کو دوبارہ پولیس سٹیشن بلایا تاکہ چوری شدہ مال کی مزید تفصیل اکٹھی کی جاسکے۔ 

 اب یہاں ڈراپ سین ہوتا ہے۔  

جونہی لڑکا اپنے بیگ کے ساتھ پولیس سٹیشن داخل ہوا میٹل ڈیٹیکٹر بول پڑا۔ پولیس والوں نے سمجھا کہ شائد اس کے بیگ میں گن ہوگی اور انہوں نے سیکیورٹی کے طور پر اس کے بیگ کی تلاشی لینا شروع کردی۔ بیگ میں سے گن تو نہ نکلی مگر چوری شدہ سارا مال برآمد ہوگیا جو وہ اپنے سسرالیوں سے چھپانے کی خاطر گھر رکھنے کی بجاۓ اپنے بیگ میں ساتھ ساتھ لۓ پھرتا تھا۔ پولیس نے دھوکہ، فراڈ، جھوٹ اور پتہ نہیں کس کس الزام میں اس پر سترہ مقدمات بناۓ اور اسے جیل بھیج دیا۔  اس بات کو دو ماہ ہوچکے ہیں اور لڑکا دو بار ضمانت کی کوشش کرچکا ہے مگر اس کی ضمانت بھی نہیں ہورہی۔ اب اگر لڑکی والے اسے معاف بھی کرنا چاہیں تو اس کی ضمانت نہیں ہوسکتی کیونکہ جو دھوکہ اس نے پولیس کے ساتھ کیا ہے وہ صرف پولیس ہی معاف کرسکتی ہے۔ یاد رہے دھوکے اور جھوٹ کی کینیڈا سمیت پورے یورپ میں کافی سخت سزا ہے۔ اب لازمی ہے کہ وہ دو چار سال جیل کی ہوا کھاۓ گا اور اس کے بعد راہِ راست پر آۓ گا کہ نہیں، یہ اللہ ہی جانتا ہے