شيخ سعدی ایک دفعہ کشتی میں سفر کررہے تھے کہ ایک شخص ان کے پاس بیٹھ کر گپ شپ لگانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس شخص نے کشتی کے ملاح سے کہا کہ اس کے ایک ہزار درہم چوری ہوگۓ ہیں۔ ملاح نے تمام مسافروں کی تلاشی لی مگر درہم کسی سے بھی برآمد نہ ہوۓ۔ اس شخص کو اپنی اس حرکت پر کافی شرمندگی اٹھانی پڑی۔

تھوڑی دیر بعد وہ شخص دوبارہ شیخ سعدی کے پاس آیا اور پوچھا وہ جو تمارے پاس ہزار درہم تھے وہ تم نے کہاں غائب کردیۓ۔ شیخ سعدی نے جواب دیا کہ جب تم نے درہم چوری ہونے کی بات کی اور ملاح نے تلاشی لینے کا اعلان کیا تو میں نے وہ ہزار درہم دریا میں پھینک دیۓ۔ یہ سن کر اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور پوچھنے لگا کہ واقعی تم نے درہم دریا میں پھینک دیۓ۔ شیخ سعدی کہنے لگے کہ اگر میں اس وقت درہم دریا میں نہ پھینکتا اور وہ مجھ سے برآمد ہوجاتے تو میری ساری زندگی کی کمائی ہوئی عزت خاک میں مل جاتی۔ میں نے اپنی نیک نامی اور عزت بچانے کیلۓ ایک ہزار درہم قربان کردیۓ اور اپنی عزت بچا لی۔

اب زمانہ الٹ چل پڑا ہے لوگ اپنی عزت بیچ کر روپے کما رہے ہیں۔ کوئی رشوت خور مشہور ہے تو کوئی اوپر کی کمائی والا، کوئی دلال ہے تو کوئی کمینہ، کوئی کنجری ہے تو کوئی اداکارہ، کوئی نیب کا خوفزدہ ہے تو کوئی این جی او کا مالک۔ یہ سب لوگ رقم اکٹھی کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ ان کا قول یہ ہے کہ دولت کمانے کا موقعہ اگر ہاتھ سے نکل گیا تو پھر دوبارہ نہیں آۓ گا عزت کا کیا ہے دولت ہوگی تو عزت بھی ہوگی۔ کئ مثالیں موجودہ دور کی تازہ ہیں جب لوگ سیاست میں آۓ تو کنگال تھے اور ان کی عزت کوئی نہیں کرتا تھا اب وہ مالدار ہیں اور سب لوگ ان نو دولتیوں کو چوہدری، ملک، شاہ، حاجی، چٹھہ، زرداري، مياں، اور پتہ نہیں کیا کیا کہ کر عزت سے بلاتے ہیں۔