ہفتہ کي رات اياز مير کا پروگرام ديکھنے کا موقع ملا جس ميں ايم ايم اے کے حافظ حسين احمد صاحب، مسلم ليگ ق کے ڈاکڑ شير افگن صاحب اور ايک ايم کيو ايم کے ايم اين اے نقوی صاحب مدعو تھے اور حقوقِ نسواں بل پر بات ہورہي تھي۔

اس پروگرام ميں ڈاکڑ شير افگن پہلے تب لاجواب ہوۓ جب انہوں نے کہا ايم ايم اے معاہدہ کر کے مکر گئ ہے اور جب حافظ حسين احمد نے انہيں تحريري معاہدے کي کاپي دکھانے کو کہا تو ڈاکڑ صاحب ثبوت مہيا نہ کرسکے۔ اس کے بعد حافظ حسين احمد نے ڈاکڑ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے تو کہا تھا پيپلز پارٹي اور ايم کيو ايم آپ کے ساتھ ہے اور آپ حقوقِ نسواں کا بل پچھلے سوموار کو اسمبلي سے پاس کروائيں گے تو پھر آپ کيوں نہيں کراسکے؟ اس بات کے جواب ميں ڈاکڑ صاحب بلکل ہي ڈھير ہوگۓ اور ايک بے بس انسان کي طرح کہنے لگے کہ انہيں تو جو ان کے ليڈر وزيرِ اعظم شوکت عزيز نے کہا وہ کيا اب اگر ان کا ليڈر ڈھيلا پڑ جاۓ تو وہ کيا کريں۔ 

اياز مير کے اس سوال کا جواب بھي ڈاکڑ شيرافگن نہ دے سکے کہ حکومت کو پي پي پي اور ايم کيو ايم کي حمائت کي وجہ سے اسمبلي ميں دوتہائي اکثريت حاصل ہے اور پھر بھي حقوقِ نسواں بل پاس نہيں کيا جارہا اس کي کيا وجہ ہے؟ اس کا جواب بھي ڈاکڑ شير افگن کے پاس نہيں تھا اور انہوں نے کہا کہ يہ بات چوہدري شجاعت سے پوچھيں۔

ہم نے پہلي بار يہ مظاہرہ ديکھا کہ اپوزيشن کو اسمبلي میں ناکوں چنے چبوانے والا آج عوامي پليٹ فارم پر بے بس تھا اور اس کي صرف اور صرف ايک ہي وجہ تھي اوروہ تھي حکومتي خود غرضي۔ جب حکومت نے ديکھا کہ حقوقِ نسواں بل پر ايم ايم اے مزہب کے نام پر سياست چمکانے کي کوشش کررہي ہے اور حکومت بے عمل مسلمانوں کے اسلام کے نام پر مشتعل ہونے کي متحمل نہيں ہوسکتي تو اس نے اپني ساري سابقہ بھڑکوں کي پرواہ کۓ بغير پيش قدمي روک دي اور حالات کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرنے لگي۔

اس ساري کہاني ميں صرف ايک بات کا کريڈٹ ايم ايم اے کو جاتا ہے جس نے اپنے زور پر اس قانوني شِک کو بل سے نکلوانے پر اپنا سارا زور لگا ديا جس کي رو سے زنا بالرضا کي اجازت دے کر يورپ کو خوش کرنے کي کوشش کي جارہي تھي۔ اب حکومت نے کم از کم اس رضامندي والے زنا کو فحاشي کا درجہ دے کر قابلِ جرم بناکر بل ميں شامل کرديا ہے۔  اس کے باوجود بقول ايم ايم اے کے اس بل ميں کئ شکيں ابھي بھي غير اسلامي ہيں۔

 ايم ايم اے کا يہ احتجاج بھي اپني جگہ درست ہےکہ بل کو اسمبلي ميں زيرِ بحث لانے کي بجاۓ غير نمائندہ افراد پر مشتمل سيليکٹ کے سپرد کرديا گيا۔ اگر حکومت سمجھتي ہے کہ اسمبلي بالا تر ہے تو پھر بل کر اسمبلي ميں بحث کيلۓ پيش کرتي اور اس پر اسبملي ميں بحث ہوتي يا پھر اسمبلي کے ممبران پر مشتمل کميٹي بنائي جاتي۔

اب تو يہي لگتا ہے يہ بل اگلے انتخابات سے قبل دوبارہ اسمبلي ميں بحث کيلۓ پيش نہيں ہوسکے گا اور اسے سرد خانے ميں ڈال ديا جاۓ گا۔ ہم ڈاکڑ شير افگن کو اس صاف گوئي پرداد ديتے ہيں کہ انہوں نے اس پروگرام ميں اس حقيقت کے اقرار کرنے ميں کوئي شرم محسوس نہيں کي کہ ايم ايم اے نے بل پاس نہ کراکے اپنے دعوے کو سچ ثابت کرديا اور ڈاکڑ صاحب کا اپنا دعويٰ غلط نکلا کہ بل پچھلے سوموار کو پاس ہوگا اور ساتھ ہي قصوروار وزيرِ اعظم اور مسلم ليگ ق کے صدر کو ٹھرا ديا۔