ہمارے گاؤں کے بچپن کے دوست جو پڑھائی میں دل نہ لگا پائے اور مڈل میں ہی سکول چھوڑ گئے۔ ان کے والد صاحب انگلینڈ میں جاب کرتے تھے اور دو چار سال بعد پاکستان کا چکر لگایا کرتے تھے۔ والدہ انپڑھ تھیں اسلیے بچوں کی پڑھائی کی طرف دھیان نہ دے پائیں اور دو بھائی اور دو بہنیں میٹرک بھی نہ کر پائے۔

ہمارے دوست کا ذہن کافی چلتا تھا۔ انہوں نے ٹریول ایجینسی کا کاروبار کیا، پھر ایک بار اٹلی اور دوسری بار جرمنی گئے مگر سیٹ نہیں ہو پائے۔ واپسی پر پھر ٹریول ایجینسی کھول لی اور اسی دوران اپنی بیوی اور تین بچوں کو گاؤں میں والدہ کے پاس چھوڑ کر کسی کے توسط سے امریکہ چلے گئے۔ ان کی قسمت اچھی تھی، ان دنوں نئی نئی امیگریشن کھلی تھی اور انہیں گرین کارڈ مل گیا۔ بیوی جو ان کی کزن تھی چٹی انپڑھ تھی اور گاؤں میں رہتی تھی۔ ہم نے دوست کو بہت سمجھایا کہ بچے امریکہ لے آؤ مگر وہ انہیں گاؤں میں ہی رکھنے پر مضر رہا۔

پھر جب دوست کو سیٹیزن شپ ملی تو اس نے اپنے بچے بلوائے مگر گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد پاکستان واپس بھیج دیے۔ ابھی پچھلے دنوں ہم نیویارک گئے تو خصوصی طور پر دوست سے ملنے گئے۔ معلوم ہوا کہ بڑا بیٹا ڈاکٹر بن رہا ہے اور چھوٹا بائیومیڈیکل انجنیئر۔ اس سے چھوٹی لڑکی ابھی ہائی سکول میں ہے اور آرکیٹیکٹ بننا چاہتی ہے۔ چار چھوٹے لڑکے ابھی مڈل سکول میں ہیں اور بڑے بھائیوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔

ہم دوست سے ملنے کے بعد دیر تک قدرت کے کمال پر حیران ہوتے رہے اور خدا کی تعریفیں کرتے رہے جس نے انپڑھ والدین کی محنت کا ایسا عظیم صلہ دیا جس کی ہر ماں باپ خواہش رکھتے ہیں۔

جب اس دوست کی بات چھڑی ہے تو پھر اس کی ایک اور خوبی بیان کرتے چلیں۔ بڑے بیٹے کی شادی چار سال قبل انہوں نے اپنے اکلوتے بھائی کی بیٹی سے کر دی تھی۔ شادی کے بعد دونوں بھائیوں کی بیویوں میں ان بن ہو گئی اور دو سال یہ لوگ آپس ميں ناراض رہے۔ دوست بتانے لگا پھر اس نے چھوٹے بھائی سے بات کی اور صلح کر لی۔ دونوں نے اب یہ سوچ رکھا ہے کہ عورتیں بھلا آپس میں لڑتی رہیں وہ کبھی آپس میں نہیں لڑیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک گاؤں میں انہوں نے اپنی زمینوں کا بٹوارہ نہیں کیا۔