پچھلے دنوں ہمارا بھتیجا جس نے حال ہی میں انجنیئرنگ کی ہے اور نوکوری ڈھونڈ رہا ہے اپنی پھوپھی سے ملنے آیا تو ہماری بہن نے ہمیں بتایا کہ اس نے داڑھی کیساتھ ساتھ لمبے بال بھی رکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے بہین سے کہا کہ اسے بولو اگر نوکری حاصل کرنی ہے تو پھر اپنا حلیہ ٹھیک کرے یعنی داڑھی سنوارے اور سر کے بال ہلکے کرے۔ بہین کہنے لگیں اس کے والد صاحب پہلے ہی اس کی داڑھی کیخلاف ہیں اور اسے کئی بار کہ چکے ہیں کہ داڑھی کٹواؤ کیوں ہمیں طالبان کے چکر میں چھاپے میں پکڑوانے کا ارداہ ہے۔ ہمارے دونوں برخوردار فیشنی باریش ہیں مگر وہ اپنی داڑھیوں کی وجہ سے کئی بار کینیڈا سے امریکہ آتے ہوئے بارڈر پر اضافی تفتیش سے گزر چکے ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ طالبان اور القاعدہ کا لفظ اب صرف ان لوگوں کیلیے مخصوص ہوتا جا رہا ہے جو باریش باعمل مسلمان ہیں۔ دہشت گردی کیخلاف پاکستانی فوج کی کاروائیوں کے بعد جوں جوں خودکش حملے بڑھتے جا رہے ہیں، طالبان اور القاعدہ کے چکر میں باریش باعمل مسلمانوں کیخلاف عوام کی نفرت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ جب سے اسلامی یونیورسٹی پر خودکش حملہ ہوا ہے یہ نفرت تیزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے۔

آج ہم یونہی سوچ رہے تھے کہ جو خودکش حملہ اسلامی یونیورسٹی پر ہوا وہ طالبان یا القاعدہ نہیں کر سکتی کیونکہ اسلامی ذہن کا آدمی اسلامی یونیورسٹی پر کبھی حملہ نہیں کرے گا۔ تب ہمیں خیال آیا یہ خودکش حملے کہیں اسلام کو عوام کے دلوں سے مٹانے کیلیے تو نہیں کئے جا رہے۔ اگر دشمنوں کی یہ سازش ہے تو پھر یہ سازش کامیاب ہو رہی ہے۔

اب ماحول ایسا بنتا جا رہا ہے کہ باعمل مسلمان ایک گالی بنتا جا رہا ہے۔ لوگ اسے دیکھ کر ایک دم ڈر جاتے ہیں کہ کہیں وہ خودکش بمبار ہی نہ ہو۔ ماڈریٹ یعنی بے عمل مسلمان ہر جگہ آزادی سے گھوم پھر سکتا ہے مگر باریش مسلمان کی آزادی صلب ہوتی جا رہی ہے۔ پچھلی صدی میں باعمل مسلمانوں کو ختم کرنے کیلیے ترکی پر اتاترک، مصر پر انورسادات، ایران پر شاہ رضا پہلوی جیسے آمر مسلط کئے گئے۔ اب خودکش حملوں کی موجودگی میں ایسے کسی آمر کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ عوام خودبخود عملیت پسندی سے دور بھاگ رہے ہیں۔ اگر یہی سازش کچھ سال جاری رہی تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان سے باعمل مسلمان ویسے ہی ختم ہو جائیں گے جیسے ترکی اور مصر سے۔

نوٹ: اس تحریر کے جواب میں بلاگر عنیقہ ناز نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے جو توجہ طلب ہے۔ وہ آپ یہاں کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں۔