صدرِ پاکستان نے این آر او کو اسمبلی میں نہ لانے کا آرڈر دے کر عوام کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ یعنی عوام اب سوچ رہے ہیں کہ حکومت نے کیا سوچ کر ایسا کیا؟ کیا حکومت کو یقین ہو گیا ہے این آر او کی موت اس کی موت نہیں ہو گی؟ کیا سپریم کورٹ کے این آر او کی موت کی تصدیق کے بعد حکمرانوں کے مقدمات ہوا میں لٹکے رہیں گے؟ کیا اس شکست کے بعد صدر زرداری کا جانا لکھا جا چکا ہے؟

ان سب سوالوں کے جوابات آنے والا وقت دے گا مگر ہماری قیاس آرائی ہے، حکومت کو یقین ہے کہ این آر او کی موت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ وہ حکومت کرتے رہیں گے کیونکہ ان پر ہما کا سایہ ہے۔ این آر او کو اسمبلی میں پیش نہ کر کے حکومت نے وقتی طور پر اس مسئلے سے گلوخلاصی کرا لی ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے نمبر بنا لیے ہیں اور مسلم لیگ ن اور ق نے اپنے۔

چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد صدر زرداری کی یہ دوسری بڑی شکست ہے۔ وہ یہی سوچ رہے ہوں گے کہ پہلی شکست نے ان کی حکومت نہیں گرائی تو دوسری شکست کیسے گرائے گی۔

ویسے تمام میڈیا اینکرز اور کالم نگار کافی عرصے سے اسلام آباد میں تبدیلی کی باتیں کر رہے ہیں۔ سب کہتے ہیں کہ صدر زرداری عہدہ صدارت سے ایسے ہی الگ ہو جائیں گے جس طرح امریکہ میں سفیر حسین حقانی الگ ہوں گے۔ مگر کب؟ یہ وہی جانتے ہیں جن کے حکم سے دونوں حضرات اپنی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔