پاکستان میں زلزلہ آۓ پورا ايک سال ہوگيا ہے اور اس دوران جو پروگريس ہوني چاہۓ تھي وہ نہيں ہوئي۔ کروڑوں ڈالروں کي امداد آئي، کروڑوں روپے پاکستانيوں نے بھي بانٹے مگر زلزلہ زدگان کے حالات نہيں بدل سکے۔ آج بھي لاکھوں لوگ خيموں ميں رہ رہے ہيں اور آنے والي سخت سردي کا سوچ سوچ کر پريشان ہورہے ہيں۔

چليں مان ليا کہ حکومت اتني امير نہيں کہ وہ سارے شہروں کو ايک دم سے دوبارہ بسا ديتي مگر کم از کم جو خرچ کيا اس کا حساب تو ديتي ۔ حساب کتاب کے بعد اگرحکومت لوگوں سے مزيد مانگتي تو لوگ دے بھي ديتے۔ ہم نے ديکھا ہے لوگوں نے حکومت کے ذريعے امداد دينے کي بجاۓ خود اپنے ہاتھوں سے زلزلہ زدگان میں امداد تقسيم کي وہ اسلۓ کہ لوگ سياستدانوں پر اعتماد ہي نہيں کرتے اور انہيں بے ايمان سمجھتے ہيں۔

ہم ابھي ايک سروے ديکھ رہے تھے جس ميں دنيا ميں سب سے زيادہ بےايمان حکومتي محکموں ميں سياستدانوں کو قرار ديا گيا ہے ۔ اس سروے ميں پاکستان بھي شامل تھا اور پاکستان کے لوگوں کي بھي يہي راۓ تھي۔

اب حکومت اگر نيک نيت ہوتي تو ضرور حساب کتاب ديتي اور اس برسي پر مرنے والوں کي فاتح کي بجاۓ بچ رہنے والوں کي بہبود کيلۓ کۓ گۓ اقدامات کے حوالے ديتي اور لوگوں سے توقع کرتي کہ وہ اس کا ہاتھ بٹائيں۔

حکومت اسلۓ بےفکر ہے کہ لوگ حکومت سے احتساب نہيں مانگ رہے اور نہ ہي سياستدانوں کو يہ کہ کر خوفزدہ کر رہے ہيں کہ وہ ان کو اگلے انتخابات ميں ووٹ نہيں ديں گے۔ 

ہماري حکومت سے يہي گزارش ہے کہ وہ اپني آخرت ہي سنوارنے کيلۓ کچھ پاکستان کيلۓ اچھے کام کرجاۓ تاکہ اس کا نام تاريخ ميں زندہ رہے۔ اگر حکومتي اہلکاروں نے بھي اپنے ہي پيٹ بھرے تو ان کو بھي جلاوطني کيلۓ تيار رہنا چاہۓ۔