جنرل صدر پرویز مشرف صاحب کی کتاب نہیں بلکہ پرویز مشرف صاحب کی کتاب “ان دی لائن آف فائر” پر کافی تبصرے ہوچکے ہیں اور اس کتاب کے اقتباسات بھی کئ جگہوں پر چھپ چکے ہیں۔ ہم نے جنرل اور صدر کے لاحقے اس لۓ ہٹا دیۓ ہیں کہ ان کی کتاب پر ان کا نام پرویز مشرف لکھا ہے اور پھر ان کی فوٹو بھی وردی کے بغیر ہے۔

ہم یہاں پر اپنی راۓ کا اظہار کرتے ہیں جو کسی تعصب اور بغض سے آزاد ہوگی۔ اگر کہیں کڑواہٹ زیادہ آجاۓ تو امید ہے صاحبِ کتاب برا نہیں منائیں گے۔

پرویز صاحب نے اپنی آپ بیتی اپنے بچپن کے واقعات سے شروع کی ہے اور سب سے پہلے اپنی ہجرت کا ذکر کیا ہے جس میں ان کے والدین سات لاکھ روپوں کی امانت انڈیا سے حکومتِ پاکستان کیلۓ لاۓ۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ سات لاکھ انہیں ملے کہاں سے تھے۔ کیا وہ ان کی جمع پونجی تھی یا برٹش انڈیا حکومت کی تجوری توڑی تھی۔

پرویز صاحب  کا ایک اور انکشاف بھی آنکھیں کھول دینے والا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ نبی پاک صلعم کی لڑی میں سے ہیں۔ بقول ان کے ان کے دادا سیّد شفیع الدّین حضرت محمد صلعم کی آل میں سے تھے اور ان کے آباؤ اجداد سعودی عرب سے ہندوستان آۓ تھے۔ چلیں مان لیا کہ یہ سچی بات ہے مگر بعد کے حالات بتاتے ہیں کہ پرویز صاحب نے اپنے آباؤ اجداد کی لاج نہیں رکھی اور وہ وہ کارنامے انجام دیۓ ہیں جن کا نبي آخروزماں صلعم کی خصوصیات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اب پتہ نہیں کیوں انہوں نے ایسی بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کے اعمال سے ثابت نہیں ہورہی۔

پرویز مشرف نے یہ تو بتایا ہے کہ ان کی والدہ ہندوستان میں کیا کام کرتی تھیں مگر والد صاحب کی نوکری کا ذکر گول کر گۓ ہیں۔

انہوں نے اپنی والدہ کی رحمدلی کا ذکر بھی کیا ہے جس میں وہ چور کو معاف ہی نہیں کرتیں بلکہ اس کو کھانا بھی کھلاتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پرویز صاحب نے چوروں کو معاف کرنے کی عادت ورثے میں پائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اب تک کسی چور کو سزا نہی دلوائی بلکہ قرضہ خوروں کو عام معافی دے دی ہے حالانکہ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے قرضے معاف کرانے والوں کے محاسبے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن وہ وعدہ اسی طرح ہوا ہوگیا جس طرح وردی اتارنے کا وعدہ تھا۔ ابھی حال ہی میں امریکہ کے دورے کے دوران ایک ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوۓ انہوں نے کہا کہ وردی اتارنے کا وعدہ زبانی کلامی تھا اس لۓ اس کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ بقول عبدل القادر حسن کے پرویز صاحب نے زبان سے کۓ گۓ وعدے کو توڑ کر اپنے ملک کےتاجروں کیلۓ کوئی اچھی مثال نہیں چھوڑی جو روزانہ زبان کی بنیاد پر کروڑوں کا کاروبار کرتے ہیں۔

پرویز مشرف نے چار سے چھ سال کی عمر میں ہی عہد کرلیا تھا کہ اگر پاکستان کی حفاظت اپنی جان دے کر بھی کرنی پڑی تو وہ کریں گے۔ اس چھوٹی سی عمر ایسی سوچ کا ہونا بہت بڑی بات ہے۔

پتہ نہیں پرویز مشرف نے اپنی والدہ کے موسیقی کیساتھ لگاؤ اور ان کی سریلی آواز کا ذکر کرکے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ پھر بعد میں اپنے والدین کو ایک  رقص کے مقابلے میں کامیاب کراکےپاکستانیوں کو کیا پیغام دیا ہے۔ کیا یہ ساری باتیں صرف روشن خیالی کا امیج بہتر بنانے اور یورپین کو خوش کرنے کیلۓ تو نہیں کہی گئیں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے سوچا ہو اسی طرح پاکستان کے چہرے سے انتہاپسندی کا لیبل ہٹایا جا سکے۔ کیا آلِ نبی صلعم سے ہم یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ ملکہ برطانیہ کی تاج پوشی پر ڈانس کرے اور پھر اول انعام کے حقدار بھی قرار پائیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آل حضرت محمد صلعم کی ہو اور وہ اس طرح کی اوچھی حرکت کرے۔ اس صورت ميں صرف دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں۔ یا تو آپ آلِ محمد صلعم سے نہیں ہیں یا پھر آپ گمراہ ہوچکے ہیں اور دینِ اسلام کو چھوڑ چکے ہیں۔

پرویز صاحب نے اپنی بچپن کی شرارتوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ لیکن انہوں نے وہی شرارتیں کیوں چنیں جن میں تخریب کاری کا عنصر نمایاں ہے۔ بلکہ وہ اپنی چوری کی عادت کو بھی بڑے فخریہ انداز سے بیان کرتے ہیں۔ ترکی میں قیام کے دوران انہوں نے پھلوں کی چوری کا قصہ بیان کیا ہے اس قصے کو بیان کرکے انہوں نے پہلے ہی سے کرپٹ معاشرے کیلۓ  کوئی اچھی مثال نہیں چھوڑي۔

ترکی میں قیام کے دوران ان کے والدین نے ایک کتا بھی پال رکھا تھا جس کا نام “وہسکی’ تھا۔ اب یہ پرویز صاحب ہی بتا سکتے ہیں کہ یہ نام انگریزی تھا یا ترکی۔ترکی ميں تو کبھی ایسا نام سنا نہیں اور اگر انگریزی نام تھا تو اس کا مطلب ہوا شراب ۔ ایک انسان جو اپنے آپ کو نبی پاک صلعم کی آل میں سے سمجھے اور اپنے کتے کا نام “وہسکی” رکھے اس تضاد کی سمجھ نہیں آئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام کتا گھر رکھنا ہی گناہ ہے سواۓ اپنی حفاظت کے اوراس پر طًرّہ یہ کہ اس کا نام “وہسکی”۔ کتاب میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کتے کا نام “وہسکی” کس نے رکھا اور کیوں رکھا۔ بعد میں کتا ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگیا لیکن پرویز صاحب نے یہ بات بھی نہیں بتائی کہ یہ حادثہ کس کی غفلت سے پیش آیا اور جانوروں سے پیار کرنے والی کی یہ لاپراوہی کچھ جچی نہیں۔

ترکی میں سات سال قیام کرنے کے بعد پرویز صاحب بارہ سال کی عمر میں اپنے والدین کیساتھ کراچی تشریف لے آۓ۔ یہ انیس سو پچپن کا زمانہ ہے اور اس دور میں ان کے والد کے پاس آسٹن کار تھی۔

پوری کتاب اس لنک پر پڑھی جا سکتی ہے۔