صدر پانی کی مشاورتی کمیٹی کے چییرمین سے آج ملے اور ان سے ان کی کمیٹی کی کاکردگی معلوم کی۔ صدر کو بتایا گیا کہ ملک میں سکردو کٹزارا، بھاشا یا کالاباغ ڈیم میں سے ایک پاکستان کے مستقبل کیلیے لازمی ہےلیکن ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہو گا کہ ان میں سے کویی ایک بن بھی سکے گا کہ نہیں۔
صدر پاکستان پرویز مشرّف کسی بھی ڈیم کے بارے میں آخری فیصلہ کریں گے۔ لیکن سوچنے کی یہ بات ہے کہ کیا صدر کو یہ فیصلہ کرنے کیلیے واقعی کسی کی مدد کی ضرورت ہے؟
کیا صدر صاحب خود ڈیم کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے؟
کیا وہ اس سے پہلے بہت سارے فیصلے اسمبلی کی مرضی کے بغیر نہیں کر چکے؟
کیا انہوں نے ایک ٹیکنیکل اور غیرسیاسی وزیرآعظم کو خود مکرّر نہیں کیا؟
کیا انہوں نے افغان پالیسی پر یو ٹرن کسی سے مشورہ کر کے لیا؟
کیا انہوں نے دو عہدے اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوے قوم کے خیالات کا پاس کیا؟
کیا انہوں نے کشمیریوں کی امداد سے ہاتھہ کہینچتے ہویے کسی سے پوچھا؟
کیا انہوں نے ابھی مدرّسون کا قانون جاری نہیں کیا؟
اگر وہ سارے فیصلے بغیر دوسرے لوگوں سے پوچھے کر سکتے ہیں تو پھر کالاباغ ڈیم کیلیے انہیں دوسروں کا ڈر کیوں ہے؟سب سے اہم وجہ جو سمجھہ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کویی بیرونی طاقت پاکستان مخالف طاقت انہیں یہ فیصلہ کرنے سے روک رہی ہے۔کہیں ایسی طاقت ضرور ہے جو پاکستان کو مستقبل میں پیاسا مارنا چاہتی ہے۔ یہ طاقت انڈیا کی بھی ہو سکتی ہے یا امریکہ کی جن کے ہاتھوں میں آجکل صدر کی ڈور ہے۔ مغرب تو پہلے ہی چاھتا ہے کہ ایک مسلم ایٹمی طاقت مستقبل میں بحران کا شکار ہو اور پانی کے بدلے مستقبل میں وہ ایٹمی طاقت کا سودا کر لے۔
امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ می ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔ وہ ہمیں ورلڈ بنک سے اتنی امداد دلواتا رہے گا کہ ہم بس زندہ رہیں۔ امریکہ ہمیں لیکن بھوکا بھی مرنے نہیں دے گا کیونکہ اسے پتہ ہے کہ بھوکا آدمی سب سے خطرناک ہوتا ہے۔ اب ہمیں یہ بات سمجھنی چھاہیے کہ ہم اپنے ملک کا کس طرح خیال رکھہ سکتے ہیں۔