ایف سی کالج لاہور کا زمانہ

لاہور ميں صدر صاحب ایف سی کالج میں داخل ہوگۓ جو بقول ان کے اُس وقت انگریز ٹائپ، جدید طرز کے طالبعلموں کیلۓ مشہور تھا۔ مگر ہمیں اس بات پر حیرانی ہے کہ میٹرک میں سیکنڈ کلاس میں پاس ہونے کے بعد انہیں اس کالج میں داخلہ کیسے مل گیا۔ بہرحال پرویز صاحب نے ہوسکتا ہے والدین کے کہنے پر ایک دفعہ مزید کوشش کی ہو ڈاکٹر بننے کی مگر ایف ایس سی میڈیکل میں اچھے نمبر نہ آنے کی وجہ سے جب انہیں کسی میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ملا ہو تو انہوں نے والدہ کی منشا کے مطابق فوج میں جانے کا فیصلہ کرلیا۔ یہاں پرویز صاحب نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوۓ ایف ایس سی {میڈیکل} لکھا ہے اور ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کی یہ اعتراف کرنے میں کہ میڈیکل کے مضامین چننے کے بعد وہ آرمی میں اس لۓ گۓ کہ انہیں میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں ملا تھا۔

اسلامیہ کالج پر جو انہوں نے دیسی کالج کے لڑکوں کا لیبل لگایا ہے اس کا جواب تو اسلامیہ کالج کے وہ ہونہار طلبہ ہی دے سکتےہیں جنہوں نے بھی آرمی جوائن کی ہوگی اور کئ کارہاۓ نمایاں انجام دیۓ ہوں گے۔۔ یورپ میں اگر آپ کسی کو دیسی یا کالا کہ کر پکاریں تو یہ نسل پرستی یعنی” ريس ازم” میں شمار ہوتا ہے۔ پرویز صاحب کو دیسی لفظ یہاں استعمال نہیں کرنا جاہیۓ تھا۔

پرویز صاحب اس کے بعد مقامی کالجوں کا بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے موازنہ کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مقامی کاجوں سے پڑھے ہوۓ لوگ اپنی ثفافت سے آگاہ ہوتے ہیں اور بیرونی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ  عموماً پاکستانی تاریخ اور اپنی تہزیب و ثقافت سے نابلد ہوتے ہیں اور اس طرح کے لوگوں نے اپنی کرپشن کے ذریعے بلکہ غیر ملکی سیاسی اور اقتصادی تصورات کے ذریعے پاکستان کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔ ظاہر ہے اشارہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی طرف ہے مگر وہ یہ بات بھول گۓ ہیں کہ ان کے بچے بھی امریکہ میں صرف پڑھے ہی نہیں بلکہ وہاں نوکری بھی کر رہے ہیں۔ اسطرح پرویز صاحب نے بحیثیت والد بچوں کو پاکستان میں نہ پڑھا کر اور رکھ کر وہ فرض پورا نہیں کیا جو ان کے والدین نے کیا تھا۔ ہمارا ملک اسی دوغلی لیڈرشپ کی وجہ سے آج تک ترقی پزیر ہے اور اربوں ڈالر کا مقروض ہے۔ اگر ہم لوگ ظاہر و باطن سے ایک ہوتے اور وہی کرتے جو کہتے تو ملک کی حالت وہ نہ ہوتی جو آج ہے۔ امید ہے پرویز صاحب اپنی اس کمزوری کی طرف دھیان دیں گے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس برائی سے چھٹکارے کی تلقین کریں گے۔ اب اگر ہم موجودہ سیٹ اپ دیکھیں تو پرویز صاحب کی آدھی کابینہ غیرملک پلٹ ہے اور ان کے پاس دوہری سیٹیزن شپ ہے۔ اب بقول پرویز صاحب کے یہ لوگ پاکستان کی تاریخ اور ثقافت سے خاک آگاہ ہوں گے اور ان کے دل میں پاکستان کیلۓ خاک ہمدردی ہوگی۔ پرویز صاحب کو چاہیۓ کہ وہ اپنے اس فارمولے پر عمل کریں اور صرف ان لوگوں کو اپنی کابینہ میں رکھیں جو مقامی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوں اور جن کو پاکستان اور اس کے عوام کی بہبود کا احساس ہو۔ کیا پرویز صاحب اپنی حکمرانی کو داؤ پر لگا کر پاکستان کی خاطر یہ قدم اٹھا سکتے ہیں؟

پرویز صاحب نے اپنی لیڈرشپ کی خصوصیات کو اجاگر کرنے کیلۓ یہ بھی بتایا ہے کہ وہ مسٹر ایف سی کالج بھی منتخب ہوۓ اور انہوں نے سال اول کے نمائندے کے انتخاب میں بھی حصہ لیا مگر یہ نہیں بتایا کہ وہ انتخاب میں ہارے یا جیتے اور اگر ہارے تو انہوں نے شکست کیسے قبول کی؟ پھر انہوں اپنی پہلی پبلک میٹنگ میں تقریر کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ آدمی اپنی پہلی تقریر میں ضرور نروس ہوتا ہے۔ یہ کمی ہم نے ان کی حکمرانی کے شروع کے دور میں بھی محسوس کی ہے جب شروع شروع میں وہ ٹی وی پر قوم سے خطاب کرنے آتے تھے تو ان میں وہ خود اعتمادی نہیں ہوتی تھی جو اب نظر آتی ہے۔

پرویز صاحب نے رات کو چوری چوری بھاگ کر فلمیں دیکھنے کا تزکرہ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ وہ رات کو مسجد میں اسلۓ سو جاتے تھے کہ کالج کے گیٹ بند ہوتے تھے۔ شکر ہے اپنی روشن خیالی کے زعم میں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ مسجد نماز پڑھنے نہیں بلکہ صرف سونے جاتے  تھے۔ ہمیں نہیں یاد کہ انہوں نے کتاب میں کہیں اپنے مزہبی رجحانات کا بھی ذکر کیا ہو سواۓ شروع میں آلِ نبی صلعم کے سپوت ہونے کے۔ اچھا ہوتا اگر دوچار باتیں وہ اپنے مزہب اسلام کیساتھ لگاؤ کی بھی لکھ دیتے۔ مگر آج کے اس دور میں جب اسلام کو انتہاپسند مزہب ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے پرویز صاحب کیلۓ یہ کام مشکل لگا ہوگا۔

صدر صاحب نے اپنی شرارتوں کی مثال بھی دی ہے تو ٹائم بم بنانے اور اس کو چلا کر ہوسٹل کے وارڈن کو حراساں کرنے کی۔ ہوسکتا ہے اسطرح انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہو کہ ان کا ذہن شروع سے ہی فوجی تھا اور ایف ایس سی میڈیکل میں داخلہ ان کی مجبوری تھی۔ لیکن اس شرارت کا ذکر کرکے انہوں آج کے دور کے طالبعلموں کیلۓ کوئی اچھی مثال نہیں چھوڑی۔ اگر وہ چاہتے کسی اور شریفانہ شرارت کا بھی حوالہ دے سکتے تھے۔  جب بم پھٹے تو وہ بھی پیشہ ور تخریب کاروں کی طرح دوسرے لوگوں کیساتھ حادثے کی جگہ پر پہنچے تاکہ کسی کو ان پر شک نہ ہو۔ بعد میں انہوں نے اپنے بیگناہ دوست کی جان چھڑانے کیلۓ اپنا جرم قبول کرلیا مگر اس کی سزا جو انہیں ملی ہوگی اس کا انہوں نے ذکر نہیں کیا بلکہ صرف معافی پر معاملہ ختم کردیا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اتنی بڑی شرارت پر آپ کو آسانی سے معافی مل جاۓ۔ ہوسکتا ہے دوچار دن کیلۓ کالج سے بیدخل کردیا گیا ہو یا پھر کالج سے مستقل طور پر خارج کردیا گیا ہو اور بعد میں سفارش پر انہیں واپس داخل کیا گیا ہو۔ لیکن اسطرح پرویز صاحب کو معلوم ہوا کہ سچ میں کتنی طاقت ہوتی ہے اور یہ بات انہوں نے ہمیشہ یاد رکھی۔ اب سبق کو انہوں نے آنے والی زندگی میں استعمال کیا کہ نہیں یہ ان کو معلوم ہے یا ان کی عملی زندگی کی کاکردگی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 

پرویز صاحب کہتے ہیں کہ ان کے والدین نے جن اقدار کا سبق انہیں دیا تھا وہ ہمیشہ ان کیساتھ رہیں۔ اچھا ہوتا اگر پرویز صاحب اپنے والدین کی اقدار کا ذکر بھی کردیتے تاکہ ان کی شرارتوں سے جو امیج ایک قاری کے ذہن میں بنتا ہے وہ ان سےمختلف اندازے نہ لگاتا یعنی نعوذبااللہ ان کے والدین نے انہیں صرف چوری اور تخریب کاری کی اقدار سکھائیں ہوں گی۔