کاکول اکیڈمی

امکان غالب ہے کہ جب پرویز صاحب کے نمبر ایف ایس سی پری میڈیکل میں اچھے نہ آۓ اور انہیں کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ملا تو انہوں نے والدہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوۓ فوج میں بھرتی کیلۓ درخواست دے دی۔ یہاں پرویز صاحب کی درمیانے درجے کی قابلیت کام آئی اور انہیں آرمی میں کمیشن مل گیا یعنی انہیں ٹریننگ کیلۓ منتخب کرکے کاکول اکیڈمی بھیج دیا گیا۔

کاکول اکیڈمی کی ٹریننگ کو پرویز صاحب نے مٹی کے برتن بنانے سے تشبیہ دی ہے یعنی جس طرح کمہار کے ہاتھوں مٹی کا برتن بنتا اور آگ میں پکتا ہے اسی طرح ایک کیڈٹ اپنے انسٹرکٹروں کے ہاتھوں پٹتا ہوا آرمی کا آفیسر بن جاتا ہے۔ان کی اس کمہار کی تشبیہ کو سمجھنے کیلۓ آپ مندرجہ ذیل پنجابی کی نظم پڑھۓ جو اس موقع پر فٹ بیٹھتی ہے۔

پہلاں کہياں پھڑ کمہيار نے ميري دتي خاک اڈا

فير بيرے بيرے کر کے ليا بورے دے  وچ پا

پا  پاني  کہاني  کرلئ  تے  سٹيا  وطنوں  دور

پيريں پيۓ نوں لتاں مارياں ميرياں ہڈياں کيتياں چور

فير تھتھوا پھڑ کے کہر دا ميرے کيتے پاسے لال

دے چکر چک نصيب دے مينوں حالوں کيتا بے حال

مينوں گِل سٔکا  اًس  کرکے  دِتا  آوي  وِچ  چڑھا

مينوں چاہڑ کے  چخا  ہجر  دي  تے  لمبو  دِتا  لا

ميں رو رو چيکاں مارياں ميري  کسے  نہ سني ڈھا

ميں    کچيوں   پکا   ہوگيا   ايڈے   دًکھ    اًٹھا

فير آياں مکھہ تے لالياں  لگے  پرکھن  سوہنے  نين

اے باہواں چوڑے والياں ايويں گل کسي دے  نہ  پہن

اپنی تعریف کرتے ہوۓ پرویز صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے وہاں خوب محنت کی چنانچہ وہ ہمیشہ اوّل رہنے والے اپنے چندساتھی کیڈٹوں میں سے ایک تھے ۔ لیکن ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ وہ کاکول میں نظم و ضبط کی پابندی نہیں کرتے تھے بلکہ لڑائی جھگڑے والے نوجوان تھے۔ ہماری اطلاع کے مطابق اگر آپ نظم و ضبط کے پابند نہیں تو پھر آپ چوٹی کے چند کیڈٹوں میں نہیں ہوسکتے کیونکہ نظم و ضبط کے نمبر بھی کاکول اکیڈمی میں اتنے ہی ہوتے ہیں جتنے پڑھائی کے۔ اب پتہ نہیں یہ تضاد پیدا کرکے پرویز صاحب نے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اسی نظم و ضبط کی خرابی کی وجہ سے انہیں انگلینڈ کورس پر نہیں بھیجا گیا۔ یہاں بھی وہ ڈنڈی مار گۓ ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ فوج میں صرف ایک ہی خصوصیت ہے جو اسے عام لوگوں سے اونچا کرتی ہے اور وہ ہے اس کا ڈسپلن۔ اب اگر آپ ڈسپلن کی پابندی نہیں کریں گے تو پھر کیسے توقع کریں گے کہ آپ کو کورس کیلۓ منتخب کیا جاۓ گا۔ ہمیں تو اس بات پر حیرانی ہے کہ اتنی بڑی خصلت ہونے کے باوجود پرویز صاحب کاکول اکیڈمی سے کیسے پاس آؤٹ ہوگۓ۔

یہاں پر پرویز صاحب اپنے ایک ساتھی جنرل علی قلی خان کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ یہ وہی جنرل ہیں جن کو سّپر سیڈ کرکے پرویز صاحب کو چیف آف سٹاف بنایا گیا اور بقول پرویز صاحب کے جنرل قلی نے دلبرداشتہ ہو کر استعفیٰ دے دیا اور گھر چلے گۓ۔ يہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ فوج جس نظم و ضبط کو اپنی خوبی بیان کرتی ہے وہ ٹاپ کی پوزیشنوں سے غائب ہوجاتا ہے اور پھر جنرل ایک دوسرے کو ‘لتاڑنا” شروع کردیتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہۓ کہ اگر ایک جنرل کا حق مارا جا رہا ہو تو دوسرے جنرلوں کو اس کی حمائت کرنی چاہۓ ۔ مگر ایسا نہیں ہوتا اور دوسرے جنرل کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے یہ تصور کرلیتے ہیں کہ ان کی باری نہیں آۓ گی اور احتجاج نہیں کرتے۔ پھر اس کو کالے کتے نے کاٹا ہے کہ احتجاج کرے جو اس وجہ سے ترقی پارہا ہے۔ اس کو کہتے ہیں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا۔ بحیثیتِ قوم ہم لوگوں میں یہ عادت بہت پرانی ہے اور اسی عادت نے بڑے بڑوں کی ایسی ایسی قبریں کھودی ہیں جن کا بعد میں نام و نشان تک نہیں ملا۔

یہاں پر پرویز صاحب نے واقعہ بیان کیا ہے جس میں وہ دوڑ کے دوران بےایمانی کرتے ہیں اور محنت سے بچنے  کیلۓ شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں جس کا بعد میں ان کے انسٹرکٹروں کو پتہ چل جاتا ہے اور بڑی مشکل سے ان کی جان بچتی ہے۔  غور کریں کیا یہ واقعہ ان کی شخصیت پر مثبت اثر ڈالنےکی بجاۓ منفی اثرنہیں ڈالتا ۔ یہ واقعہ پڑھ کر قاری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کہیں پرویز صاحب نے ساری ٹریننگ اسی طرح چیٹنگ کرکے تو مکمل نہیں کی تھی۔ یہ تو ان کے ایڈوائزروں کو بھی عقل ہونی چاہۓ تھی کہ وہ اس واقعہ کی بجاۓ کوئی اور حوالہ دیتے جس سے ان کی لیڈرانہ روش کی عکاسی ہوتی نہ کہ بے ایمانی اور دھوکہ دہی والی شخصیت ذہن میں ابھرتی۔

ہمارے ایک دوست اور کلاس فیلو بڑھے پڑہاکو تھے اور ہمیشہ کلاس میں اوّل آتے تھے۔ پڑہائی کے چوتھے سال بھی انہوں نے ٹاپ کیا ۔ ڈگری ڈسٹنکشن کیساتھ لینے کیلۓ آپ کو اورآل پچاسی فیصد نمبر چاہیۓ ہوتے ہیں۔ دوست کو اندازہ تھا کہ اگر وہ اپنے پراجیکٹ میں چار سو میں سے تین سو تمبر لے گا تو اس کے پچاسی فیصد تمبر پورے ہوجائیں گے۔ جب ڈیپارٹمنٹ کے چیئرنے جو ذرا ڈل تھے اور اسی لۓ ڈنگر کے نام سے مشہور تھے ان کو پراجیکٹ کے نمبر بتاۓ تو وہ تین سو سے تین نمبر کم تھے۔ اب دوستوں نے دوست کو مشورہ دیا کہ وہ چیئرمین سے بات کرے کہ وہ اسے تین نمبر مزید دے دے۔ اس نے جب بات کی تو پتہ ہے ڈنگر نے کیا جواب دیا۔ کہنے لگا مجھے تو اب پتہ چلا ہے کہ تم نے کلاس میں ٹاپ کس طرح کیا ہے۔ لگتا ہے اسی طرح تما اساتزہ کی منتیں سماجتیں کر کر کے تمبر بڑھاتے رہے ہو۔ تو جناب اس نے اسے تین نمبر نہ ہی دیۓ۔ یہ الگ بات ہے کہ دوست اپنی قابلیت کی وجہ سے ہرجگہ کامیاب رہا اور آج کل ریلوے میں بہت بڑا افسر ہے۔

پاسنگ آؤٹ کا ذکر پرویز صاحب گول کرگۓ ہیں جو کاکول اکیڈمی کی شاندار روائت ہے اور بہت مقبول ہے۔ اچھا ہوتا اگر اپنے ان دوستوں کا بھی ذکر کردیتے جن کو پاسنگ آؤٹ میں ایوارڈز ملے تھے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ پاسنگ آؤٹ کے بعد آپ سے آپ کی مرضی کی پوسٹنگ پوچھی جاتی ہے مگر انتخاب سارا میرٹ پر ہی ہوتا ہے۔ پرویز صاحب نے اینٹی ایئر کرافت رجمنٹ مانگی اور بقول ان کے اس رجمنٹ میں چھ ماہ کی توپ خانے کی ٹریننگ ضروری تھی اسلۓ انہیں توپ خانے میں تعینات کردیا گیا۔ اور پھر کہتے ہیں کہ وہ ساری عمر توپ خانے ميں ہی رہے۔ لیکن یہاں اس بات کا ذکر پرویز صاحب نے نہیں کیا کہ وہ پھرچھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد اینٹی ایئر کرافٹ رجمنٹ میں کیوں نہیں گۓ۔ حالانکہ ہمارا خیال یہی ہے کہ انہیں توپ خانے کی رجمنٹ دی گئ اور بعد میں رجمنٹ بدلنا فوج میں آسان کام نہیں ہوتا اسلۓ پرویز صاحب اسی رجمنٹ کے ساتھ چپکے رہے۔

یہاں پھر انہوں نے اپنی بنگالن محبوبہ کا ذکر کیا ہے کہ وہ اس کی وجہ سے کراچی پوسٹنگ چاہتے تھے جو بعد میں بنگلہ دیش منتقل ہوگئی۔ بنگالن کا تزکرہ بھی یہاں پر خواہ مخواہ ڈال دیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے روشن خیالی کا ذکر بار بار کرنا کتاب بیچنے کیلۓ ضروری ہو۔ 

 آرمی میں افسر بننے پر پرویز صاحب کہتے ہیں کہ ‘وہ پھر ایک شریف آدمی سے آرمی آفیسر بن گۓ”۔ پتہ نہیں انہوں نے اس طرح آرمی آفیسر کو شریف آدمی کے درجے سے نکال کر کس درجےمیں فٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہوسکتا ہے انہوں نے عام آدمی کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہو کہ آرمی آفیسرز کے مقابلے میں تمہاری شرافت کسی کام کی نہیں۔ دوسرے پہلے پرویز صاحب ثابت کرچکےہیں کہ وہ مختلف گینگوں میں رہے اور انہوں نے سارے بدمعاشوں والے کام کۓ لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنے آپ کو شریف آدمی کہلوا کر اس مخمصے میں ڈال دیا ہے کہ وہ پہلے شریف تھے یا بعد میں یا پھردونوں یعنی شریف بدمعاش ۔ اچھا ہوتا جو پرویز صاحب شریف آدمی اور آرمی آفیسر کی تعریف کردیتے تاکہ ہم جیسے سادہ لوگوں کو بھی فرق معلوم ہوجاتا۔