بھٹو دور میں چین کے ماوزے تنگ اور چواین لائی کی صورت میں چین کیساتھ ہمارا تعارف ہوا۔ اس کے بعد ٹیکسلہ میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس اور ہیوی فاونڈری اینڈ فورج کا دورہ کیا تو معلوم ہوا چین نے ہماری ٹیکنالوجی میں کتنی زیادہ مدد کی ہے۔ اس کے بعد پاکستان آرڈینینس فیکٹری میں دفاعی سازوسامان تیار کرنے میں چین نے مدد کی۔ یہ سلسلہ تب سے جاری ہے اور اسی سلسلے میں آج چین کی مدد سے جے ایف 17 تھنڈر طیارہ پاکستان نے تیار کر کے ایک اور کامیابی حاصل کر لی ہے۔

یہ طیارہ تمام قسم کے ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ پروجیکٹ 2003 میں شروع ہوا اور چھ سال کے قلیل عرصے میں چین نے ساری ٹیکنالوجی پاکستان منتقل کر دی۔ جلد ہی پاکستان اپنی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے بعد یہ طیارے برآمد بھی کرنا شروع کر دے گا۔

چین ہمارے ان چند گنے چنے دوست ممالک میں سے ہے جس نے ہمیں مچھلی نہیں بلکہ مچھلی پکڑنے کا کانٹا ہمیشہ امداد میں دیا ہے۔ یہ چین کی عظمت ہے کہ اس نے پاکستان کے داخلی معاملات میں کبھی دخل اندازی نہیں کی اور نہ ہی حکومتوں کے اکھاڑ پچھاڑ میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ چین کی ان خوبیوں کے باوجود ہم نے کبھی چین کو دوسرے ممالک پر فوقیت نہیں دی۔ ہم ان ممالک کی جھولی میں جا بیٹھے جنہوں نے ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا مقروض بنایا، جنہوں نے ہمیں ایسا دفاعی سازوسامان بیچا جو ان کیلیے بیکار ہو چکا تھا، جنہوں نے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کی، جنہوں نے ہمارا ملک دو ٹکڑے کر دیا وغیرہ وغیرہ۔

اب بھی وقت ہے ہمارے حکمران چین کی مدد سے پاکستان میں کارخانے لگانا شروع کر دیں تا کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ کیونکہ ملک تبھی ترقی کرتے ہیں جب وہ اپنے روزمرہ کے اخراجات چلانے کی بجائے صنعتیں لگانے کیلیے قرضے لیتے ہیں۔ اگر ہمارے حکمران پاکستان کیساتھ مخلص ہیں تو پھر انہیں چین کی مدد سے ملک میں صنعتوں کا جال بچھا دینا چاہیے۔ اگر مخلص نہیں ہیں تو پھر آئی ایم ایف کے آگے جھولی پھیلائے رکھیں اور اپنا بجٹ اسی کی نگرانی میں بنا کر عوام کا خون چوستے رہیں تا کہ آئی ایم ایف کے قرضوں پر سود کی ادائیگی وقت پر ہوتی رہے۔