1965 کی جنگ کے ہیرو

پرویز صاحب 1965 کی جنگ کا ذکر پھر اپنی حکم عدولی کے واقعے سے کرتے ہیں۔ جب وہ بناں چھٹي کے آٹھ دن کیلۓ کراچی چلے گۓ اور انہوں نے اپنے افسر اشرف قاضی کی بات کو بھی رد کرتے ہوۓ پورے آٹھ دن چھٹي نہیں بلکہ نوکری سے غیرحاضری کی تو ان کے افسر نے ان کا کورٹ مارشل کردیا۔ کہتے ہیں 1965 کی جنگ نے انہیں بچا لیا وگرنہ وہ آرمی سے آؤٹ ہوچکے تھے۔

بھلا کوئی بتاۓ کہ کبھی جنگوں نے کورٹ مارشل روکے ہیں اور وہ بھی سینیئر کی حکم عدولی پر۔ چلیں مان لیا کہ ان کا کورٹ مارشل کا آرڈر کینسل کردیا گیا مگر پھر اتنی بری رپورٹ کے بعد پرویز صاحب جنرل کے عہدے تک پہچے یہ ایک معجزہ ہی ہے وگرنہ اگر ایک دفعہ اتنا بڑا داغ لگ جاۓ تو آپ میجر یا لیفٹینینٹ کرنل سے آگے نہیں جاسکتے۔

کہتے ہیں 1965 کی جنگ پاکستان نے جیتی اور اس کے ثبوت کے طور کہے ہیں کہ  بھارت کی فضائیہ کا زیادہ نقصان ہوا اور پاکستانی فوج نے انڈیا کے زیادہ علاقے پرقبضہ کیا۔ حالانکہ عالمی تاریخ کی ساری کتابیں یہ کہتی ہیں کہ پاکستان نے یہ جنگ میدانِ جنگ کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر ہاری اور فوجی حکومت کے دور ميں ہاری۔ اگر پاکسان کو اس جنگ میں برتری حاصل تھی تو اس بنا پر پاکستان نے تاشقند میں اپنی مرضی کا معاہدہ کیوں نہ کیا اور صدر ایوب نے اس وقت وہی کیا جو نواز شریف نے کارگل کی جنگ میں کیا۔ پرویز صاحب کو بہادری کا تمغہ ملا لیکن تمغے کا نام نہیں بتایا کہیں وہ عام سا تمغہ ہی نہ ہو۔ تمغہ کس بناں پر ملا اس کا ذکر بھی کتاب میں نہیں ملتا۔

کہتے ہیں ان کے کمانڈنگ آفیسر کو بھی ان کی بہادری دیکھ کر اپنی راۓ بدلنی پڑی کہ “سبھی تیز طرار نوجوان کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں” ۔ اب فوج اور کنٹرول سے باہر ہونا دو متضاد چیزیں ہیں۔ فوج میں ایک کام چلتا ہے اور وہ ہے جونیئر کو ذلیل کرنا اور سینئر کے سامنے ذلیل ہونا۔ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ آپ اکھڑ بھی ہوں اور ترقی بھی کرتے جائیں۔ ہاں یہ ایک ہی آدمی کرسکتا ہے جس کا کلّہ مضبوط ہو۔

جنگ میں کئی معرکوں کا پرویز صاحب نے ذکر کیا ہے اور ان میں اپنی بہادری دکھائی ہے۔ پہلے کھیم کرن میں دشمن کے علاقے پر قبضہ کرنا اور پھر لاہور میں چونڈہ والی ٹینکوں کی جنگ میں حصہ لینا۔ اس جنگ میں انہوں نے ایک جونیئر آفیسر یعنی لیفٹینٹ کے طور پر حصہ لیا اسی لۓ ہر معرکے میں ان کا رول ایک سپاہی کا ہے لیڈر کا نہیں۔

اس باب کے آخر میں وہ پھر اپنی بدمعاشی کا ذکر بڑے غرور سے کرتے ہیں۔ بقول ان کے ان کے سینئرز کی ان کے بارے میں راۓ یہ تھی کہ جو اس کے منہ میں آۓ کرتا ہے اور نظم و ضبط کا لحاظ نہیں کرتا۔ پتہ نہیں پرویز صاحب نظم و ضبط کو توڑنے پر اتنا کیوں اترا رہے ہیں اور وہ اسے کس لۓ اپنی بہادری قرار دے رہے ہیں۔ وہ بڑے فخر سے لکھتے ہیں کہ انہیں مختلف اوقات میں نظم کی پابندی نہ کرنے، لڑائی جھگڑے اور افسروں کی حکم عدولی پر کئی بات سزائیں دی گئیں۔ حالانکہ اگر آپ میں ڈسپلن نہیں ہے تو آپ ناکام ترین شخص ہیں۔ جس جس نے ڈسپلن کے بغیر زندگی گزاری وہ ناکام ہی ہوا۔ یہ پہلا کیس ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کی سروس بک سرخ نشانات سے بھری پڑی ہو اور وہ چیف آف سٹاف بنا دیۓ جائیں۔ لگتا ہے ان کی ترقی اور سارے کیریئر کے پیچھے کوئی غیبی طاقت  رہی ہے جس نے اتنی بڑی بڑی حماقتون کے باوجود ان کو ترقی کی منزلیں طے کرنے میں مدد دی۔ کہیں یہ غيبی طاقت وہ تو نہیں جس کے کہنے پر انہوں بناں چوں چراں کۓ ساری شرائط مان لیں اور اب اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہیں دھمکی دے کر ڈرایا گیا{ اور وہ فوجی ہوکر بھی ڈر گۓ}۔