آخرکار حکومت نے ہار مان لی اور چینی کو اوپن مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اس طرح ایک طرف چینی کی کمی ختم ہو جائے گی اور دوسری طرف بلیک کرنے والوں کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔ اس سارے چکر میں اگر کسی کو فائدہ ہوا تو وہ شوگر مل مافیا تھا اور اس مافیا کے ارکان حکومت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ماہ کی تگ و دو کے بعد سپریم کورٹ شوگر مل مافیا کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور آخر تھک ہار کر خاموش ہو گئی۔

سیدھی سی بات ہے ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں جان بوجھ کر اس مسئلے کو لٹکاتی رہیں تا کہ ایک طرف شوگر مل مافیا بلیک سے منافع کما سکے اور دوسری طرف چینی 45 روپے کلو فراہم کر کے عوام کی ہمدردیاں سمیٹي جا سکیں۔ مگر جب عوام کو سستی چینی سپلائی کرنے کی مہم ناکام ہو گئی تو حکومت نے اپنے ارکان یعنی شوگر مل مافیا کی مرضی کے مطابق چینی پر کنٹرول ختم کر دیا اور ان  کو چینی کی قیمت خود مقرر کرنے کا اختیار دے دیا۔

یعنی اس سارے بکھیڑے میں ہر طرح سے جیت شوگر مل مافیا یعنی حکومتی اہلکاروں کی ہوئی اور عوام بیچارے چینی کو ترستے رہے۔ اسے کہتے ہیں چت بھی ہماری پت بھی ہماری۔