1988 سے 1999تک کا ہنگامہ خیز دور

جنرل ضیا کی موت کے بعد بینظیر اور نواز شریف نے دو دو بار حکومت کی اور اپنے دورِ حکومت میں وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں ہی کھینچتے رہے۔ اس دور کو پرویز صاحب نے جمہوریت کا بھیانک اور ہولناک عشرہ قرار دیا ہے۔

اس عرصے کے دوران پرویز صاحب کرنل سے جنرل بن گۓ اور انہوں نے بہت سارے اتار چڑھاؤ دیکھے۔

جنرل ضیا کے طیارے کے حادثے کے بارے میں بھی ان کے خیالات وہی ہیں جو پبلک کے ہیں۔ انہوں نے اپنی فوجی زندگی کے تجربے کی بنا پر اس حادثے کو نہیں پرکھا۔ کہتے ہیں طیارے کا بلیک باکس بھی مل گیا تھا مگر کسی نے تحقیقات کی پیروی نہ کی۔ یہاں پر پرویز صاحب یہ بھول رہے ہیں کہ انہوں نے بھی اپنے سات سالہ دورِ اقتدار میں اس کیس کو دوبارہ کھلوانے کا تردد نہیں کیا اور اپنے ایک باس اور پیٹي بند بھائی کی موت کا معمہ حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اندازہ یہی ہوتا ہے کہ کسی ماورائی طاقت نے تمام حکمرانوں کو اس حادثے کی تحقیقات سے روک رکھا ہے۔ پرویز صاحب نے اس حادث کے بارے میں اپنے شکوک و شبہات کی بات ہے مگر ان شکوک و شبہات کی تفصیل میں جانے کی کوشش نہیں کی اور نہ انہيں دور کرنے کا عزم کيا ہے۔

 بینظیر کے پہلے دور میں انہیں دوبارہ وزیرِ اعظم کا ملٹری سیکریٹری بنانے کی آفر کی گئ جو انہوں نے پھر اپنے پرانے باس جنرل فرخ کے کہنے پر رد کردی۔ وہی بات ہے کہ بریگیڈیئر کے عہدے والے فوجی میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس آفر کو نامنظور کرے۔ دوسرے اگر پہلی دفعہ جنرل فرخ نے انہیں بتا  دیا تھا کہ ان کا ملٹری سیکریٹری بننا ان کے کیریئر کے لۓ اچھا نہیں ہے تو پھر دوبارہ جنرل فرخ سے مشورہ کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ انہیں جنرل فرخ کے جواب کا پہلے ہی سےعلم تھا۔

پرویز صاحب صومالیہ میں فوج کی تعیناتی اور وہاںپر جانی نقصان کی بات کرتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ صومالیہ فوج بھیجنا ٹھیک تھا کہ نہیں۔  پرویز صاحب فوج کی خدمات اور اس کے خطروں سے کھیلنے کی ہرجگہ بات کرتے ہیں مگر انہوں نے کہیں بھی کوئی ایسا واقعہ بیان نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کی کمانڈو کی خصوصیات نمایاں ہو پاتیں۔ دوچار واقعات جو پرویز صاحب نے بیان کۓ ہیں وہ  عام سے واقعات ہيں کوئی خاص بہادری کی مثالیں نہیں ہیں۔

پرویز صاحب جب کورکمانڈر بنے تو انہیں سیاستدانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے دیکھا کہ آرمی چیف کی کیا اہمیت ہوتی ہے اور یہی تجربہ اب ان کے کام آرہا ہے۔ اسی تجربے کی بنا پر انہوں نے نواز شریف کے ساتھیوں کو نیب کی تلوار سے ڈرا کر اپنے ساتھ ملا لیا اور سرکاری مسلم لیگ بنا لی۔

پرویز صاحب شکائت کرتے ہیں کہ جنرل جہانگیر کرامت نے 1997 میں ان کا حق مار کر جنرل علی قلی خان کو چیف آف جنرل سٹاف بنا دیا اور ساتھ ہی جنرل علی قلی خان کو ایک اوسط درجے کا آفیسر قرار دیا ہے حالانکہ پرویز صاحب اقرار کرتے ہیں کہ علی قلی خان ان سے سینیئر تھے اور وہ سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔ یہ وہی جنرل علی قلی خان ہیں جن کو پرویز مشرف کی بجاۓ انگلینڈ تریننگ کیلۓ بھیجا گیا تھا۔ پرویز صاحب یہ بھی کہتے ہیں جنرل جہانگیر کرامت اس وقت جنرل علی قلی خان کو اپنی جگہ پر چیف آف سٹاف بنانا چاہتے تھے۔ 

اب اندازہ ہوتا ہے کہ فوجی حضرات بھی جب چوٹی پر پہنچتے ہیں تو وہ بھی سولین کی طرح ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردیتے ہیں۔ اس وقت وہ صرف اپنے مفاد کی خاطر اپنے ساتھیوں اور سینیئرز کی بھی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے۔ یہی کچھ پرویز صاحب کے چیف آف سٹاف بننے پر ہوا۔ جب سینیارٹی میں تیسرے نمبر آفیسر کو چیف بنایا گیا تو سینیئر علی قلی خان نے استعفٰی دے دیا۔ جنرل علی قلی خان کا استعفٰی فوج کی روائت کے عین مطابق تھا کیونکہ کوئی بھی فوجی افسر اپنے جونیئر کے انڈر کام کرنے کو راضی نہیں ہوتا۔ اگر پرویز صاحب سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر ہونے کے باوجود جب پروموٹ نہیں ہوتے اور اپنے استعفے کی بات کرتے ہیں تو پھر جنرل علی قلی خان کا استعفٰی تو ٹھیک تھا۔ یہاں پر اگر انصاف سے دیکھا جاۓ تو جیسے فوجی اپنے باس کا ہر حکم مانتا ہے اور اگر نہ مانے تو اس کا کورٹ مارشل کردیا جاتا ہے، اسی طرح اگر سینیئر کا حق مارا جاۓ تو پھر جونیئر کو اپنے سینیئر کیلۓ سب کچھ قربان کردینا چاہۓ مگر نہیں حقیقی دنیا میں انسان خود غرض ہے اور وہ اپنی ذات کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کیلۓ تیار ہوتا ہے۔ اگر پرویز صاحب نے بناں احتجاج کۓ اور اپنے سینیئرز کی عزت کوپيروں تلے روندتے ہوۓ چیف کا عہدہ قبول کیا تو کوئی نیا کام نہیں کیا۔ اللہ جانے یہ خود غرضی کا کھیل کب ختم ہوگا اور کب حقدار کو اس کا حق ملنا شروع ہوگا۔ پرویز صاحب کو جو روائت ورثے میں ملی اس کو انہوں نے ابھی تک جاری رکھا ہوا ہے۔ ابھی تک وہ کتنے سول لوگوں کا حق مار کر فوجیوں کو سول محکموں کا سربراہ بنا چکے ہیں اور کتنے ہی اپنے چہیتوں کی نوکریوں میں توسیع کرچکے ہیں۔ سب سے بڑا حق توانہوں نے مستند سیاستدانوں کا مارا جب انہوں نے کسی بیرونی طاقت کے کہنے پر ایک غیر سیاسی وزیرِ اعظم مقرر کیا۔ ان کے حواری سیاستدانوں کی ماں مرجاۓ جو انہوں نے احتجاج تک کیا ہو کیونکہ یہ سارے نیب زدہ ہیں اور کسی کا بھی دامن صاف نہیں ہے۔

جنرل علی خان بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گۓ کیونکہ ایک تو وہ صدر فاروق لغاری کے کلاس فیلو تھے جنہیں بعد میں استعفٰی دینا پڑا۔ پھر جنرل وحید کاکڑ بھی رخصت ہوگۓ اور پرویز صاحب کیلۓ میدان صاف ہوگیا یا کسی ماورائی طاقت نے ان کیلۓ میدان صاف کردیا۔

ویسے یہ بات ذہن نشین رہےکہ ہماری فوج کا سیٹ اپ کچھ اسطرح ہے کہ مزہبی اور محبِ وطن آدمی ترقی پاکر اوپر آہی نہیں سکتا۔ یہ پرانی بات نہیں ہے جب پرویز صاحب نے چن چن کر فوج سے اسلامی ذہن رکھنے والوں کو نکالا اور اب ان میں کچھ تبلیغی جماعت ميں ہیں اور کچھ گھروں میں آرام فرما رہے ہیں۔ ابھی تک ہم نے کسی چیف آف سٹاف یا آرمی چیف کو داڑھی میں نہیں دیکھا۔ اگر کوئی آرمی آفیسر اسلام کی طرف راغب ہو کر داڑھی رکھ بھی لیتا ہے تو وہ بریگیڈیئر سے اوپر نہیں جا پاتا۔

ہماری فوج کی ٹریننگ ابھی تک پرانے انگلستانی طور طریقوں پر ہورہی ہے جس میں آفیسروں کے ذہن میں یہ خناس بٹھا دیا جاتا ہے کہ وہ اعلٰی مخلوق ہیں اور اگر انہوں نے کامیاب ہونا ہے تو سپاہیوں اور ایروں غیروں سے فاصلہ رکھیں۔ اکثر کیڈٹ شروع میں ہی داڑھی مونچھ صاف کرا دیتے ہیں اور پھر ان کو رہن سہن اور چلنا پھرنا اسطرح سکھایا جاتا ہے کہ ان کی گردن ہمیشہ اکڑی رہتی ہے۔ تربيت کے بعد جب کيڈٹ آفيسر بنتا ہے تو آدھا ديسي گورا بن چکا ہوتا ہے اور آرمي کي بڑي آسامي پر پہنچتے پہنچتے وہ پورا ديسي گورا بن جاتا ہے۔ آرمي کے بڑے صاحب ريٹائر ہو کر بھي گورا پن ترک نہيں کرتے اسي لۓ ہميشہ سر پر کيپ اور ہاتھ ميں چھڑي نظر آتي ہے جو مرتے دم تک ان کي جان نہيں چھوڑتي۔ 

اگر فوج کو اقتدار سے دور رکھنا ہے اور اسے محبِ وطن بنانا ہے تو پھر فوجی تربیت کے طریقوں کو اسی طرح بدلنا ہوگا يعني انگريزي نظامِ تربيت کو چھوڑ کر اسلامي طرزِ تربيت اپنانا ہوگا۔ ليکن موجودہ حکومت سے اس بات کي توقع عبث ہے کيونکہ وہ تو اس کے الٹ پہلے ہي ہمارے تعليمي نصاب سے اسلامي شعار يعني جہاد وغیرہ کو نکال رہي ہے اور اس کي جگہ پر محبت کي داستانوں کا اضافہ کر کے قوم کو روشن خيال بنارہي ہے۔ اللہ جانے اس کا فوج کو کیا فائدہ ہوگا کیونکہ فوج کا وجود ہی جہاد سے ہے اور اگر آنے والی نسلوں سے جہاد کا خیال نکال دیا گیا تو پھر فوجی کہاں سے بھرتی کۓ جائیں گے اور اگر بھرتی کر بھی لۓ تو وہ کس بنیاد پر جنگ کریں گے۔

بحث کو اسطرح سمیٹنے کا مطلب یہ ہے کہ اس فوجی سیٹ اپ کی وجہ سے جو بھی آرمی چیف بنے گا وہ جنرل ایوب، جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف سے مختلف نہیں ہوگا۔ آرمي چيف کے اسلامي ہونے کيلۓ ضروري ہے کہ فوج کے بنيادي ڈھانچے ميں تبديلي کي جاۓ۔