ابھي ابھي جنرل صدر مشرف نے ايک نجي ٹي وي کو انٹرويو ديتے ہوۓ بڑي کھري باتيں کي ہيں۔ اگر ان کو عوام کا ذرا بھي ڈر ہوتا تو وہ يہ باتيں کبھي  سرِعام نہ کہتے۔ يہ باتيں وہي شخص کرسکتا ہے جو اگلے انتخابات ميں عوام کے ووٹوں سے جيتنے کو اہميت نہيں ديتا اور سمجھتا ہے کہ پاکستان کي موجودہ عوام ان کا کچھ نہيں بگاڑ سکتي۔ اسي لۓ جنرل صاحب بڑے دھڑلے سے ايسا سچ بولتے ہيں جو حقيقت ميں ان کي کارکردگي کو زيرو بنا ديتا ہے مگر انہيں کسي کا ڈر خوف نہيں ہے۔

جنرل صاحب کہتے ہيں کہ سات سال پہلے کي نسبت وفاق کمزور ہوا ہے۔ وہ يہ بھي کہتے ہيں کہ صدر کو وردي ميں نہيں ہونا چاہۓ اور ساتھ ہي يہ دعويٰ بھي کرتے ہيں کہ آئندہ کوئي جنرل حکومت پر قبضہ نہيں کرسکے گا۔ اپني اس بات کا اعادہ کرتے ہوۓ پتہ نہيں وہ کس کو مخاطب کر رہے ہيں کہ پاکستان ميں آوے کا آوا ہي بگڑا ہوا ہے۔ ليکن لگتا ہے اس بے خوفي کے باوجود ابھي بھي ان کے دل ميں تھوڑا سا عوامي غضب کا ڈر موجود ہے اور اسي لۓانہوں نے يہ اعتراف نہيں کيا کہ ان کي حکومت ميں نيب زدہ لوگ شامل ہيں۔ ان کو اس بات کا بھي اقرار کرلينا چاہۓ تھا مگر ہوسکتا ہے وہ اپني ق ليگ کي قيادت سے ڈر گۓ ہوں۔

ان کا يہ دعويٰ بھي سو فيصد غلط ہے کہ نواز شريف اور بينظير اگر ملکر ان کيخلاف اليکشن لڑیں تو وہ سو فيصد ان کو ہرا ديں گے۔ اگر انہيں اس بات پر واقعي سو فيصد يقين ہوتا تو وہ کبھي بھي ان دونوں رہنماؤں کو پاکستان واپسي سے نہ روکتے۔ انہيں ان دو رہناؤں کے بھوتوں سے اتنا ہي ڈر ہے جتنا جنرل ضيا کو بھٹو سے تھا۔

انٹرويو ميں انہوں نے يہ بھي بتايا کہ بچپن ميں انہيں سب گھر ميں “پلو” کہتے تھے۔ اب يہ نام پرويز کو بگاڑ کر رکھا گيا يا پھر نيا ايجاد کيا گيا۔ ہم نے تو آج تک “پلُّو” کا لفظ سنا ہے جو روز مرّہ زندگي میں بولا جاتا ہے اورپنجابی میں پلُّو اس شخض کو کہتےہيں جو عقل سے پيدل ہو۔

يہ بات سب جانتے ہيں کہ اپنے گناہوں کو تسليم کرنے سے جنت نہيں ملتي بلکہ گناہوں سے توبہ کرنے اور پھر کفارہ ادا کرنے سے جنت ملتي ہے۔ اس لۓ جنرل صاحب کو چاہيۓ تھے کہ اعتراف کيساتھ کيساتھ گناہوں کے ازالے کا بھي سوچتے۔انہيں معلوم ہونا چاہۓکہ وہي گناہ معاف ہوں گے جو حقوقِ خدا کي حکم عدولي ميں سرزد ہوۓ ہوں گے۔ جو حقوق لوگوں کے غضب کۓ وہ لوگ ہي معاف کريں گے تو جان چھوٹے گي۔ مگر ان باتوں کي پرواہ اسے ہوگي جو آخرت پر يقين کرے گا۔ جسے آخرت پر ہي يقين نہيں وہ گناہوں کي معافي کيوں مانگے اور کفارہ کيوں ادا کرے۔