رمضان میں ہم نے قارئین سے یہ پوچھا تھا کہ وہ روزے رکھتے ہیں کہ نہیں۔ جواب ہاں يا نہ ميں تھا اور تیسرا جواب روزے کبھی کبھی رکھنے کا بھی تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم میں ابھی تک اتنی مسلمانی باقی ہے کہ ہماری اکثریت کا جواب ہاں میں تھا۔ اس سروے کا نتیجہ کچھ اس طرح رہا۔ چھیاسی فیصد نے کہا کہ وہ روزے رکھتے ہیں، سات فیصد نے کہا نہیں اور سات فیصد ہی نے کہا کبھی کبھی۔

یقین مانیں ہمارا خیال تھا کہ اکثریت کا جواب نہ میں ہوگا۔ کیونکہ پچھلے کئ سالوں سے جس طرح روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو ہوا دی جارہی ہے، ہمیں یہی امید تھی کہ مسلمانوں کی اکثریت روشن خیالی اپنا کر سیکولر بنتی جارہی ہوگی۔ کیونکہ عید کے بعد ملتان میں زہریلی شراب پی کر ہلاک ہونے والوں اور ہاکس بے پر نائٹ کلب میں بتیاں بجھا کر رنگ رلياں منانے والوں کی خبریں پڑھ کر ہمارا تو دل بیٹھا جارہا تھا اور یہی لگ رہا تھا کہ روشن خیالی پروان چڑھ رہی ہے۔ سروے کے بعد ہمارا یقین پکا ہوگیا ہے کہ اب بھی مسلمانوں کے اندر اسلام کی روح باقی ہے اور ايک اچھي ليڈرشپ مسلمانوں کو ترقي کي منزليں طے کراسکتي ہے۔