کل جب باجوڑ ایجینسی کے سکول کو میزائل داغ کر ملیا میٹ کردیا گیا اور اس کے اندر صبح کی نماز پڑھنے کیلۓ اٹھنے والے 80 نمازیوں کو شہید کر دیا گیا تو میرے ذہن میں یہ سوال گھومنے لگا کہ ان دو گروہوں میں سے کونسا گروہ مسلمان تھا۔ وہ گروہ جو سکول میں اسلامی تعلیم حاصل کررہا تھا اور بحالتِ وضو شہید ہوگیا یا وہ گروہ جس نے صبح سویرے 80 افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔

کسی بھی مقدمے کا فیصلہ کرنے سے پہلے جج حالات و واقعات کا جائزہ لیتا ہے، ملزم کو صفائی کا موقع دینے کے بعد اور پھر سارے مقدمے کی تفصیل پڑھ کر اس قابل ہوتا ہے کہ وہ ملزم کو بری کردے یا سزاۓ موت دے دے۔ مگر باجوڑ کے مقدمے میں تو ملزموں کو صفائی کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ نہ ہی ثبوت پیش کۓ گۓ اور انہیں سزاۓ موت دے دی گئ۔

جس مقدمے کا فیصلہ زمین پر نہ ہوپاۓ اس کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ شہید ہونے والے تو خدا کے دربار میں حاضر ہوگۓ اب مارنے والوں کا انتظار رہے گا۔ جب وہ خدا کی عدالت میں پہنچیں گے تو پھر فیصلہ ہوگا کہ نماز کی تیاری کے دوران شہید ہونے والے لوگ سچے تھے یا صبح نہار میزائل داغنے والے۔

اس کاروائی کی تاریخ جب لکھی جاۓ گی تو یہ ضرور کہا جاۓ گا کہ پاکستان ميں حکومت سیکولر روشن خیال لوگوں کی تھی اور ان کا مقابلہ نہتے مسلمانوں کیساتھ تھا۔ سیکولر روشن خیال حکمرانوں کو اتحادی افواج کی حمایت حاصل تھی اور مسلمان صرف خدا کی مدد کا انتظار کرتے رہے۔