اپنے سسٹم کا نفاذ – حصہ دوئم

نقول پرويز صاحب کے اس ريفرنڈم ميں انہوں نے کسي کو اپنے مقابلے میں کھڑا ہونے کي اس لۓ اجازت نہ دي کہ کہيں مزيد مسائل نہ کھڑے ہوجائيں اور تخريب کار سارے کھيل کو بگاڑ نہ ديں۔ اسي لۓ پرويز صاحب نے پولنگ سٹيشنوں پر صرف يکطرفہ عملہ تعينات کيا۔

پرويز صاحب کيوں نہيں مانتے کہ اگر وہ اپنے مخالف اميدوار کھڑا ہونے ديتے اور اس اميدوار کے ايجينٹوں کو پولنگ اسٹيشنوں پر ڈيوٹي دينے ديتے تو پھر ان کي مقبوليت کا پول کھل جاتا اور وہ ريفرنڈم آساني سے نہ جيت سکتے۔

آخر کار پرويز صاحب ميڈيا پر شفاف طريقے سے پيش ہوۓ اور انہوں نے لوگوں کي سپورٹ کا شکريہ ادا کيا اور يہ بھي اقرار کيا کہ کہيں کہيں دھاندلي ہوئي ہے ليکن ميرے علم کے بغير۔ پرويز صاحب نے اس دھاندلي کي ذمہ داري قبول کي اور معزرت بھي کي۔ پرويز صاحب کہتے ہيں کہ اگر سچ بولا جاۓ تو عوام تھوڑي بہت زيادتي کو معاف کرديتے ہيں۔ ليکن اگر عادي سياستدانوں کي طرح جھوٹ بولا جاۓ تو لوگ سزا ديتے ہیں۔

پرويز صاحب يہاں يہ بات بھول رہے ہيں کہ لوگوں نے انہيں اسلۓ کچھ نہ کہا کہ وہ حکومت ميں تھے اور ساري طاقت ان کے ہاتھ ميں تھي۔ اگر وہ بھي وردي کي طاقت سے محروم ہوتے تو ہم ديکھتے کہ لوگ کيسے انہيں معاف کرتے ہيں۔

ريفرنڈم جيتنے کے بعد آرڈينينسوں کا سلسلہ جاري ہوا جو قومي اسمبلي کي موجودگي کے باوجود ابھي تک جاري ہے۔ ابھي پچھلے دنوں صدر صاحب نے عورتوں کے بارے ميں ايک آرڈينينس جاري کيا جس کي وجہ سے سينکڑوں خواتين جيل سے رہا ہوئيں۔ ہم اس اقدام کو درست قرار ديتے ہيں مگر اس کے اطلاق کا طريقہ غلط ہے۔ چاہۓ تو يہ تھا کہ اسمبلي اس بارے میں بل منظور کرتي جو سينٹ سے ہوتا ہوا صدر تک پہنچتا اور پھر اس پر صدر دستخط کرتے۔ مگر اس طرح جمہوريت کي بالادستي ہوتي جو ايک مطلق العنان حکمران کو منظور نہيں اور وہ چاہتا ہے کہ ہر اچھے کام کا کريڈٹ براہِ راست اس کو جاۓ اور اس طرح اس کا اقتدار مضبوط رہے۔

ہاں تو پرويز صاحب نے ايک آرڈينينس ميں ووٹروں کي عمر اکيس سال سے گھٹا کر اٹھارہ سال کردي۔ دوسرے ميں انہوں نے خواتين کي مخصوص نشتوں کي تعداد اسمبلي میں ساٹھ تک بڑھا دي۔ پرويز صاحب نے يہ باور کرانا بھي ضروري سمجھا ہے کہ 1997 کي مردم شماري فوج کے ذريعے ہوئي تھي۔ اس مردم شماري کي رو سے پاکستان کي آبادي چودہ کروڑ ہوگئ اسلۓ پرويز صاحب نے قومي اور صوبائي اسمبليوں کي نشستوں کي تعداد بھي بڑھا دي۔ اقليتوں کے اليکشن بھي الگ کرديۓ تاکہ غيرمسلم صرف غيرمسلموں کو ووٹ دے سکيں اور اپنے نمائندے چن سکيں۔

ايک اور قانون ميں تبديلي کي اور اسمبلي اور سينٹ کے اميدواروں کيلۓ بي اے کي ڈگري لازمي قرار دے دي۔ اس ترميم کا ايک فائدہ يہ ہوا کہ اسمبليوں کي انگوٹھا چھاپ ارکان سے جان چھوٹ گئ مگر نقصان يہ ہوا کہ برابري کي بنا پر انپڑھ لوگ اسمبلي کا اليکشن لڑنے سے محروم کرديۓ گۓ۔

بينظير اور نواز شريف کو حکومت سے باہر رکھنے کيلۓ صدر اور وزيرِ اعظم کي مدتِ ميعاد مقرر کردي اور يہ قرار پايا کہ کوئي بھي شخص دو بار سے زيادہ صدر يا وزيرِاعظم نہيں بن سکے گا۔

 ليکن ہميں نہيں معلوم کہ کيا ايک عہدے پر دوبار رہنے والا دوسرے عہدے کيلۓ اميدوار ہوگا کہ نہيں۔ اس پابندي کا اطلاق پرويز صاحب پر بھي ہوگا مگر دس سال بعد۔ تب ديکھيں گے کہ اس قانون کيساتھ کيا سلوک ہوتا ہے۔ پرويز صاحب خود مانتے ہيں کہ ايک لحاظ سے پابندي کي وجہ درست بھي ہے مگر وہ دونوں سياستدانوں کے جرائم کو اصل وجہ بتاتے ہيں ان کي نااہلي کي۔ کہتے ہيں کہ اس تبديلي سے نۓ خون کو اعليٰ عہدوں پر فائز ہونے کے بھي زيادہ مواقع مليں گے۔

پرويز صاحب نے اپنے ذاتي تجربات کي بنا پر جب ديکھا کہ کبھي وزيرِ اعظم نے آرمي چيف کو ذاتي دشمني کي بنا پر ريٹائر کرديا اور کبھي صدر نے وزيرِ اعظم کو برطرف کرديا اور اس طرح اقتدار کي رسہ کشي ذاتي مفادات کا کھيل بني رہي۔ وزيرِ اعظم، صدر اور آرمي چيف کے جھگڑوں کو ختم کرنے کيلۓ پرويز صاحب نے نيشنل سيکورٹي کونسل بنانے کا فيصلہ کيا۔ پرويز صاحب کہتے ہيں کہ يہ کونسل نہ پارليمينٹ سے بالا ہوگي اور نہ نيچے بلکہ يہ مشاورت کے فرائض انجام دے گي۔ اس کونسل ميں وزيرِ اعظم، چاروں صوبوں کے وزيرِ اعليٰ، قومي اسبملي کےحزبِ اختلاف کے ليڈر، سينٹ کے چيئرمين، قومي اسمبلي کے سپيکر،اور چاروں فوجي جنرل جو جوائنٹ چيف آف سٹاف اور آرمي، ائيرفورس اور نيوي کے سربراہ شامل ہوں گے۔ ان تيرہ ميں ايک چيئرمين جو صدر ہوگا اور باقي بارہ ممبران ہوں گے۔ پرويز صاحب مانتے ہيں کہ آرمي چيف کو سياست سے باہر رکھنے کيلۓ صرف اس کا ممبر ہونا چاہۓ تھا مگر فوج کي حساس پوزيشن کا خيال رکھتے ہوۓ انہوں نے تمام چار ستاروں والے جنرلوں کو اس کونسل ميں شامل کرنے کا فيصلہ کيا۔

پرويز صاحب کہتے ہيں کہ اس کونسل کا اجلاس سال ميں چار بار ہوا کرے گا اور اسطرح طاقت کے تين ستونوں ميں چيک اينڈ بيلينس رہ سکے گا۔  پرويز صاحب کو معلوم ہے کہ سياستدانوں نےجنرلوں کي کونسل ميں شمولييت کي مخالفت کي اور دنيا کا بھي اعتراض تھا کہ جنرلوں کو سياست ميں شامل کيوں کيا مگر پرويز صاحب کو ان اعتراضات کے باوجود يقين ہے کہ اسطرح وہ صدر کو ناجائز طور پر اسمبلي توڑنے سے باز رکھ سکيں گے ۔ يہ بہتر طريقہ ہے جمہوريت کو بحال رکھنے اور ملک کو مارشل لاء سے بچانے کا۔ يہ پاکستاني حالات کيلۓ ضروري ہے۔ تب تک يہ طريقہ رائج رہے گا جب تک ملک جمہوريت اپني جڑيں مضبوط نہ کرلے۔ بدقسمتي سے اپوزيشن نے اس کونسل کا بائيکاٹ کيا۔ يہ اپوزيشن چھ مزہبي جماعتوں کا اتحاد ہے جو يا تو کونسل کي اہميت کو سمجھ نہيں پايا يا پھر وہ ان کے ريفارمز کو فيل کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ پرانے دنوں کو واپس لاسکيں۔

ہم نيشنل سيکورٹي کونسل کے قيام کي وجوہات پر غيرجانبداري سے غور کرتے ہيں۔ ہمارے خيال ميں اس کونسل کے قيام سے فوج کو مستقل سياست میں ايک کردار دے ديا گيا۔ اس طرح ہوسکتا ہے نظر آنے والے مارشل لاء سے تو جان چھوٹ جاۓ مگر ملک پر ہميشہ کيلۓ ايک ناديدہ مارشل لاء مسلط کرديا گيا۔ اسطرح سياست کا کھيل اسمبليوں اور سينٹ کي بجاۓ اس کونسل ميں ہوا کرے گا اور ملک کي قسمت کے فيصلے يہي کونسل کيا کرے گي۔ اس طرح ملک ميں نہ تو صدارتي نظام ہوگا اور نہ ہي پارليماني بلکہ روس کيطرح سيکورٹي کونسل پولٹ بيورو کي شکل ميں ملک پر حکومت کرے گي۔

اس کے بعد پرويز صاحب بلدياتي اصلاحات کے نفاذ کي بات کرتے ہيں اور کہتے ہيں کہ اسطرح جمہوريت عام لوگوں تک پہنچے گي۔ بلدياتي حکومتوں کو بہت سارے اختيارات دے ديۓ اور انتظاميہ کو ان کے زيرِ انتظام دے ديا۔

ہمارے خيال ميں پرويز صاحب نے اس نظام کے تحت ملک ميں ناظمين اور نائب ناظمين کي شکل ميں اپني ايک سياسي پارٹي کھڑي کرلي اورانہيں قومي اسمبلي اور صوبائي اسمبلي کےممبران کے برابر لاکھڑا کيا۔ اس طاقت کو سياستدانوں اور سياست سے الگ رکھنے کيلۓ جنرل ضيا کي تقليد کرتے ہوۓ غير جماعتي انتخابات کراۓ۔