ہمیں ٹیپو کے بارے میں تبھی معلوم ہوا جب اس کی موت کی خبر اخبار میں پڑھی۔ اس خبر کے ساتھ اس کی پوری ہسٹری لکھی ہوئی تھی۔ اس نے دوسرے بدمعاشوں کی طرح پہلوانوں کے اکھاڑے کو استعمال کیا۔ وہ ایک ایسا ہی کردار ہے جیسے پرانے وقتوں میں نظام لوہار، دلا بھٹی، سلطانہ ڈاکو وغیرہ تھے۔ اس کی شاہ عالمی میں حکومت اور پھر اس کی موت پر مارکیٹوں کی بندش سمجھ میں آنے والی بات ہے کیونکہ ہم اس طرح کے اپنے علاقے کے  بدمعاش منظور شاہ کا عہد اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔

اس کی کہانی میں بھی پولیس اور مقامی سیاستدانوں کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ پولیس نے اس کے دشمنوں کو ایک ایک کر کے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کیا۔ سیاستدان انتخابات میں کامیابی کیلیے اس کے ڈیرے پر حاضری دیتے رہے۔ اس کے علاقے کے غریب اسے حکمران مانتے تھے اور اسی کے در سے مدد حاصل کرتے تھے۔ حیرانی ہے کہ وہ اب تک ایم این اے یا ایم پی اے کیوں نہ بن سکا۔ عجیب لگتا ہے جب اس طرح کے بدمعاش پولیس کی نگرانی میں اپنا نیٹ ورک چلاتے ہیں اور لمبی عمر پاتے ہیں۔ وہ جس طرح حکومت کے اندر حکومت چلا رہے ہوتے ہیں حکومت کیلیے پریشانی کا باعث نہیں بنتے اور نہ ہی حکومت کی رٹ چیلنج ہوتی ہے۔ کراچی سمیت سارا ملک اس طرح کے بدمعاشوں سے بھرا پڑا ہے اور حکومت ان کے سامنے یا تو بے بس ہے یا پھر خود اس کاروبار میں ملوث ہے۔