آج بڑے شوق سے ہم صبح نہار اٹھے تا کہ پاکستان اور آسٹریلیا کے بیچ ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ میچ کی دوسری اننگز دیکھ سکیں۔ اکمل نے خوب بیٹنگ کی مگر کسی دوسرے بیٹسمین نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔ اکمل کی اننگز کی بدولت جب پاکستان کو چھ اوورز میں تیس رنز درکار تھے تو ہم نے سوچا جلدی سے نہا دھو کر کام کیلیے تیار ہو جائیں تا کہ میچ کی وننگ شاٹ کی جھلک دیکھ سکیں۔ مگر ہماری قسمت میں میچ وننگ شاٹ نہیں لکھی تھی۔ تبھی تو جب ہم واپس آئے تو پاکستان کو آٹھ بالوں پر دس رنز درکار تھے مگر عمرگل اور عمر اکمل کی جلد بازی نے ہمارے سارے خواب چکنا چور کر دیے۔

ہم لوگ لگتا ہے جب جیت کے قریب پہنچتے  ہیں تو آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ایک وقت میں جب فی اوور چھ رنز درکار تھے تو پھر ہمیں رسکی شاٹ کھیلنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ہم ایک ایک اور دو دو رنز بنا کر سکور بڑی آسانی سے پورا کر سکتے تھے۔ اس جلد بازی میں اکمل برادران اور عمر گل وکٹیں گنوا بیٹھے اور پاکستان جیتا ہوا میچ۔

پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ ہمارے کھلاڑی موقع کی نزاکت سے اپنی تکنیک تبدیل نہیں کرتے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ آفریدی کی طرح آنکھیں بند کر کے شاٹ پہ شاٹ کھیل کر ہیرو بن جائیں۔ وہ جواری کی طرح ایک ہی جست میں کروڑ پتی بننے کے خواب دیکھتے ہیں اور شیخ چلی کی طرح اپنی ہی لات سے اپنے ہی خوابوں کے برتین توڑ دیتے ہیں۔ اس جلد بازی سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے جیسے ہمارے کھلاڑی ابھی بچے ہیں۔