عمر اور اسامہ – حصہ دوئم

طالبان نے سب سے برا اقدام بدھا کے دو بہت بڑے بت توڑ کر کیا جو صدیوں سے بامیان میں تھے۔ دنیا نے پاکستان سے درخواست کي کہ وہ طالبان سے کہے کہ وہ بت نہ توڑیں۔

پرویز صاحب کی نظر میں ساری دنیا نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرکے بڑي غلطی کي۔ اگر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرکے ساری دنیا نے کابل میں اپنے سفارتخانے کھولے ہوتے تو آج وہ ان پر بت نہ توڑنے کیلۓ مشترکہ دباؤ ڈال سکتے تھے۔

اس لۓ یہ پاکستان پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ طالبان سے مزاکرات کرے۔ جب ہم نے ساری دنیا کے نمائندے کے طور پر ملا عمر سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس کا نقطہء نظر مختلف پایا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ خدا کا حکم ہے کہ بت توڑ دیۓ جائیں۔ اسی لۓ خدا نے بارش کے ذریعے بتوں کے نیچے بڑے بڑے سوراخ بنادیۓ ہیں تاکہ وہاں پر ڈائنامائٹ آسانی سے نصب کۓ جاسکیں۔ ملا عمر نے پاکستان کی کوئی قدر نہ کی اور بتوں کو توڑ دیا۔

[ملا عمر نے بتوں کو توڑ کر اسلام کی کوئی خدمت نہيں کی۔ اس نے بت اسلۓ توڑے کہ اسلام میں بتوں کو شریک ٹھرایا گیا ہے اور اسلامی تاریخ میں بتوں کو شروع سے ہی اچھا نہیں سمجھا گیا۔ اچھا ہوتا جو ملا عمر اسلام کے اس اصول کو بھی سامنے رکھتے جس میں دوسرے مزاہب کی قدر کرنے کی تلقین کی گئ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں مسلمانوں نے حکومت کی، وہاں دوسرے مزاہب کی عبادت گاہوں کو نقصان نہیں پہنچایا]۔

اس عمل نے اسلام کو ایک بے رحم مزہب کے طور پر پیش کیا۔ ملا عمر نے اس مزہب کی بےادبی کی جسے وہ عزیز سمجھتا تھا۔ یہ ہمارے لۓ بہتر ہے کہ ہم ایسے اسلام کی نفی کریں جو بے رحم ہے اور اسلام کو ایک ترقی پسند، جدید اور لبرل کے روپ میں پیش کریں جو کہ صحيح اسلام ہے۔ لوگ کیوں اپنے قیمتي وقت سے چند لمحے نکال کر اسلام کی خوبیاں تلاش کرتے پھریں۔ لوگ تو اسلام کو اسی طرح جانیں گے جس طرح وہ اسے مسلمانوں میں پائیں گے۔ 

911 کے بعد پرویز صاحب کی نظر میں امریکہ کے ہاتھوں افغانستان اور طالبان کو تباہی سے بچانے کیلۓ ایک ہی راستہ تھا اور وہ تھا اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کو کسی طرح افغانستان سےنکال باہر کرنا۔ پرویز صاحب کو سب سے بڑا خدشہ یہ تھا کہ امریکہ کے طالبان کیخلاف فوجی ایکشن کے پاکستان پر برے اثرات پڑیں گے۔ افغانستان کیلۓ اسامہ کو اتحادیوں کے حوالے کرنے یا ملک بدر کرنے کا معاملہ بہت اہم تھا۔ پاکستان نے یہ جانتے ہوۓ بھی کہ کامیابی کے امکانات کم ہیں طالبان سے مزاکرات شروع کردیۓ۔ امریکہ اور دوسری دنیا نے اس وقت ہمارے افغانستان کیساتھ تعلقات کی اہمیت کو محسوس کیا اور پرویز صاحب کی پہلے سے سفارتی تعلقات بحال رکھنے کی حکمتِ عملی ٹھیک ثابت ہوئی۔ اگر کابل میں دوسرے ملکوں کے سفارتخانے بھی ہوتے اور وہ ملکر ملا عمر پر اسامہ کیخلاف دباؤ ڈالتے تو شائد کامیاب ہوجاتے۔

ملا عمر اور طالبان پر 911 کی دہشت گردی کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ ملا عمر نے کہا کہ خدا نے امریکہ کو مسلمانوں کیساتھ بے انصافی برتنے پر سزا دی ہے۔ خدا ان کیساتھ تھا اور اسامہ ان کا ہیرو تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ملا عمر کیساتھ مزاکرات اتنے مشکل تھے کہ جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایسے ہی تھا جیسے دیوار کیساتھ سر پھوڑنا۔ اس وقت دو طرح کے متضاد خیالات پاۓ جاتے تھے۔  پرویز صاحب کے خیال میں ہر ایک کو جنگ وجدل سے بچنے کیلۓ ہرممکن کوشش کرنی چاہۓ۔ ملا عمر سمجھتا تھا کہ مسلمان کیلۓ جنگ میں موت اور تباہی ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔

دوسروں کی طرح جو موت کے بعد کی زندگی کو ابدی اور موجودہ زندگی کو ایک عارضی زندگی قرار دیتے ہیں طالبان اور القائدہ کی طرح کے مزہبی انتہا پسند موت اور وہ بھی شہادت کی موت کو جنت میں داخلے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ لیکن مسٔلہ یہ ہے کہ عام جنگ اور مزہبی جنگ میں کیسے تفریق پیدا کی جاۓ۔ پرویزصاحب کہتے ہیں کہ اُن جیسے لوگوں کا سنہری اصول ہے کہ لیڈر کی سب سے پہلی ڈیوٹی  اپنے ملک، اس کے عوام اور ان کی پراپرٹی کو بچانا ہونا چاہۓ۔ دوسري طرف ملا عمر جیسے لوگ سمجھتے ہیں کہ دنیاوی مال اور جان سے زیادہ اپنے اصولوں اور روایات کو ترجیح دینی چاہۓ۔ ان روایات میں سے ایک یہ ہے کہ اس شخض کی حفاظت کرو جو تمہارا مہمان ہے۔ اسامہ اور اس کے لوگ ملا عمر اور طالبان کے مہمان تھے اور یہی سب سے بڑی مشکل تھی۔

[ اس پیراگراف میں پرویز صاحب نے ایسا پیغام دینے کی کوشش کی ہے جو جنگل کے قانون کے مصداق ہے۔ یعنی اپنی جان بچاؤ چاہے اسکیلۓ اپنا دین اور اصول سب کچھ قربان کرنا پڑ جاۓ۔ انہوں نے اپنا اور ملا عمر کا اس طرح موازنہ کیا ہے کہ ملا عمر ایک اصول پسند آدمی بن کر ابھرا ہے جس نے اپنے وعدے پر اپنی شہنشاہت قربان کردی اور پرویز صاحب نے اپنے وعدے کو توڑ کر اپنی وردی بچا لی۔ کہیں کہیں اس باب میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پرویز صاحب نے اسلام کو ایک ناکام دین ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور دنیاوی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی ہے۔ اب اللہ جانتا ہے کہ اس کے پيچھے ان کا کونسا مقصد کارفرما ہے]۔

جیسا کہ پرویز صاحب کا خیال تھا انہوں نے کوشش کی مگر وہ ملا عمر کو  صدر بش کی اکتوبر 7، 2001 کی ڈیڈ لائن سے پہلے اسامہ کی ملک بدری کیلۓ قائل نہ کرسکے۔ ہم نے اسے بتایا کہ تمہارا ملک تباہ ہوجاۓ گا مگر وہ نہ مانا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ امریکہ کو شکست دے دے گا۔ اس منطق کے پیچھے سب سے پہلے اسامہ بن لادن کی شہ تھی۔ لیکن اس کے علاوہ  دوسرے ناسمجھ مزہبی علماء بھی تھے حتیٰ کہ پاکستانی مزہبی علماء بھی یہی سمجھتے تھے۔

[اس نقطہء نظر پر بحث کی گنجائش نہیں ہے امید ہے قارئین خود ہی سمجھ جائیں گے کہ پرویز صاحب کی اس منطق کے پیچھے کونسا پیغام چھپا ہوا ہے]۔

امریکہ نے  اکتوبر 7، 2001 کو افغانستان پر لگاتار بمباری شروع کردی اور ساتھ ہی شمالی اتحاد نے طالبان پر زمینی حملہ کردیا۔  مختصر سی منصوبہ بند مزاحمت کے بعد طالبان نے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لے لی جہاں وہ گوریلہ جنگ کیلۓ ماہر مانے جاتے ہیں۔ دسمبر کے پہلے ہفتے میں ملا عمر بھی ہنڈا موٹرسائیکل پر فرار ہوگیا۔ بعد میں ایک دفعہ جاپانی وزیرِ اعظم نے پرویز صاحب سے ملا عمر کے بارے میں پوچھا تو پرویز صاحب نے از راہِ تفنن جواب دیا کہ ہنڈا موٹرسائیکل کیلۓ بہترین اشتہار اس طرح بن سکتا ہے کہ ملا عمر کو ہنڈا پر بھاگتے ہوۓ دکھایا جاۓ جس میں اس کی چادر اور لمبی داڑھی ہوا میں لہراتی جارہی ہو۔

[یہاں پر پرویز صاحب کو داڑھی کا مزاق نہیں اڑانا چاہۓ تھا کیونکہ داڑھی سنتِ رسول ہے۔ وہ ملا کا مزاق اڑاتے مگر اچھا ہوتا اگراسلامی شعار کا مزاق اڑانے سے پرہیز کرتے]۔

تب سے ملا عمر کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ پرویز صاحب کو دو وجوہات کی بنا پر پکا یقین ہے کہ ملا عمر اپنے علاقے کندھار یا اس کے ارد گرد روپوش ہے۔  ایک، جب ملا عمر نے کبھی پاکستان کا دورہ ہي نہیں کیا تو وہ کس طرح پاکستان میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھے گا۔ دوسرے، جنوبی افغانستان کے علاقے طالبان کے گڑھ رہے ہیں اور وہیں ملا عمر اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ افغان حکومت کا خیال ہے کہ ملا عمر کوئٹہ پاکستان میں رہ رہا ہے۔ یہ ایک بیہودہ خیال ہے۔ اگر وہ کوئٹہ میں رہ رہا ہوتا تو اب تک دوسرے طالبان کی طرح پکڑا جاچکا ہوتا۔ جونہی امریکہ اور شمالی اتحاد طالبان کو پیچھے دھکیلتے گۓ ان میں سے بہت سارے بھاگ کر پاکستان آگۓ جن کی وجہ سے بعد میں پاکستان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

چونکہ ملا عمر ابھی تک زندہ ہے اور آزاد ہے۔ پھر طالبان ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں کۓ جاسکے۔ اسلۓ کچھ کا ابھی تک یہی خیال ہے کہ ملا عمر ابھی تک امریکہ کو شکست دینے کیلۓطالبان کی کمانڈ کر رہا ہے۔ اس طرح سوچنا اس آدمی کیلۓ آسان ہے جس کا پیٹ بھرا ہوا ہے اور جس کے پاس گھر اور فیملی ہو۔ مگر اگر کوئی کسی افغانی سے پوچھے کہ وہ اپنی فیملی، گھر اور اپنی ذات کا اپنی عزت کیساتھ موازنہ کرے تو پتہ ہے وہ کس چیز کو اولیت دے گا؟ افغانی عزت پر دوسری چیزوں کو ترجیح دے گا۔

[ہمیں نہیں لگتا کہ پرویز صاحب کی یہ منطق تمام افغانیوں پر صادق آتی ہو۔ اگر یہ بات سچ ہوتی تو اب تک دولت سے مالا مال اتحادیوں کے خلاف افغانی مزاحمت نہ کررہے ہوتے اور اتحادیوں سے ڈالر وصول کرکے شاہانہ زندگی گزار رہے ہوتے۔ اگر پرویز صاحب کی بات سچ ہے تو پھر ابھی تک کارزائی کی حکومت کابل تک کیوں محدود ہے۔ ہم نے تو یہ سن رکھا ہے کہ افغانی جیسا بھی ہے اپنی زمین پر غیروں کا قبضہ پسند نہیں کرتا]۔

[اس باب میں پرویز صاحب نے ایک تو ایسا نقشہ کھینچا ہے جس سے دینِ اسلام کی تضحیک ہوتی نظر آتی ہے۔ دوسرے پرویز صاحب نے ملا عمر اور اسامہ کی مخالفت آنکھیں بند کرکے کی ہے اور اس ،خالفت میں انہوں نے عزتِ نفس کو ایک حقیر شے جانا ہے اور دنیا کا مال و دولت اور اس عارضی زندگی کو آخرت کی ابدی زندگی پر ترجیح دی ہے۔ ہوسکتا ہے اسطرح انہوں نے مغرب کو اپنی روشن خیالی اور لبرل ازم سے متاثر کرنے کی کوشش کی ہو]۔