چاہے پاکستان جیسا تھرڈ ورلڈ ملک ہو یا امریکہ جسیا ترقی یافتہ سپرپاور، پولیس کی چھترول دونوں ملکوں میں ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ جسیے ملک میں پولیس چھترول کی ویڈیو منظرعام آنے کے بعد لاس اینجلس جیسے شہرے میں ہنگامے ہوتے ہیں، اربوں روپوں کی توڑپھوڑ ہوتی ہے مگر پاکستان میں احتجاج برائے نام ہوتا ہے۔

پولیس کی چھترول ایک ایسی یونیورسل حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ پاکستان میں پولیس کا ملزمان کو پبلک کے سامنے پیٹنا ایک معمول ہے۔ اس چھترول کو تماشائی بھی پسند کرتے ہیں۔ دوسری طرف پولیس اسے تماشائیوں کیلیے عبرت بنا کر پیش کرتی ہے۔

ہو سکتا ہے اس چھترول کے فائدے بھی ہوں یعنی ملزمان سے اقرار جرم کروانا اور انہیں سزا دلوانے کیلیے شواہد اکٹھے کرنا۔ مگر پولیس چھترول کے نقصانات زیادہ ہیں۔ پولیس کی مار ملزم کو پڑتی ہو مجرم کو نہیں۔ ملزم بیگناہ بھی ہو سکتا ہے اور گناہگار بھی۔ پولیس کی چھترول سے سب سے بڑا نقصان انسانیت کی تذلیل ہے۔

چھترول کے علاوہ بھی بہت سارے طریقے ہیں ملزم سے راز اگلوانے کے مگر چھترول سب سے آسان اور سستا نسخہ ہے اسلیے پولیس اسے بے دریغ استعمال کرتی ہے۔ پولیس کی چھترول اس ظلم سے پھر بھی بہت کم ہے جس میں پولیس والے ملزمان کی ماؤں بہنوں کو اٹھا کر حوالات میں بند کر دیتے ہیں۔

پولیس کی دہشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چنیوٹ میں پولیس کی چھترول کا شکار ہونے والے انسانوں کی اکثریت نے نہ صرف طبی معائنہ کرانے سے انکار کیا بلکہ عدالت میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ چھترول کی ویڈیو بن چکی ہے مار نہ پڑنے کے حق میں بیان دیا۔ اب ہو سکتا ہے جج ملزمان کے اس بیان کی وجہ سے پرچہ خارج کر دے۔ لیکن اگر جج انسان ہوا تو ویڈیو کی شہادت پر پولیس کے اہلکاروں کو ضرور سزا دے گا۔

ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد پولیس چھترول تو ختم نہیں ہو گی مگر ویڈیو بنانے پر پابندی لگا دی جائے گی۔ موبائل کیمروں کی موجودگی میں پولیس چھترول کی ویڈیو بنانا ناممکن نہیں ہو گا اگر کسی میں پولیس سے ٹکر لینے کی ہمت ہوئی تو۔