نیوکلیاتی دنیا – حصہ اول

جنوبی ايشیا دنیا کا وہ خطہ ہے، جہاں نیوکلیائی جنگ کا شعلہ بھڑک سکتا ہے۔ سرد جنگ ختم ہونے سے پہلے ہزاروں نیوکلیائی ہتھیاروں سے مسلح سوویت یونین اور امریکہ کی رقابت نے تمام دنیا کو متفکر کر رکھا تھا۔ جب یہ دونوں ملک تلواریں لہراتے تھے۔ جیسے کہ کیوبا کے میازئل بحران کے دوران، تو دنیا سالنس روک لیتی تھی۔

اب جب سے پاکستان، بھارت کی تقلید میں ، نیوکلیائی کلب میں داجل ہوا ہے، ہم دونوں بھی جب ایک دوسرے کے مدِ مقابل اور آمنے سامنے آتے ہیں تو دنیا سانس روک لیتی ہے۔ یہ صورتِ حال اس سرد جنگ سے کہیں برتر ہے، جب وہ دونوں حریف ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوتے اور جنگ ان کے نام پر دوسرے لڑا کرتے تھے۔ جب آپ کا دشمن آپ کا ہمسایہ ہو، جب آپ نے اس کے ساتھ متعدد جنگیں لڑی ہوں، جب اس کے ساتھ آپ کا ایک بڑے علاقے کے بارے میں تنازعہ ہو اور جب آپ کا ملک وجود میں آنے کے وقت ایک دوسرے کے قتلِ عام کی ناقابلِ فراموش تاریخی یادیں جڑی ہوں تو یہ سرد جنگ نہیں، بلکہ ایک خطرناک معانقہ ہے جس میں دونوں کے ہاتھوں میں بندوقیں اور انگلیاں بندوقوں کی لبلبی پر ہیں۔

[ کوئی مانے یا نہ مانے، اس مقام تک پاکستان کو پہنچانے کا سہرا ہمارے ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیرخان کے سر ہے جنہیں اب قربانے کا بکرا بنا کر قید کیا ہو ہر]۔

اس مقابلے کی نیوکلیائی حیثیت کی تصدیق اس وقت ہوئی، جب بھارت نے 11 اور 13 مئ 1998 کو پانچ نیوکلیائی دھماکے کۓ اور پاکستان نے 28 اور 30 مئ کو چھ نیوکلیائی دھماکے کرکے اس کا جواب دیا۔ دنیا کو یہ دھچکا اس سے کہیں زیادہ زور سے لگا جو 1974 میں بھارت کے یکطرفہ پہلے نیوکلیائی دھماکے سے لگا تھا۔ بھارت نے 1974 کے تجربے کو امن دھماکے کا نام دیا تھا، جسے دنیا نے تھوڑی ناپسندیدگی کے اظہار کے بعد قبول کرلیا تھا، لیکن اس دھماکے نے جنوبی ايشیا میں نہ صرف نیوکلیائی ہتھیاروں کی دوار کا آغاز کر دیا، بلکہ نیوکلیائی دہشت بھی پھیلا دی کیونکہ ہمسایہ ملکوں کو اپنی سالمیت کے لۓ انتہائی خطرے کا احساس اور فکر لاحق ہوگئی تھی۔ 1998 میں دنیا کی اس قدر شدید مخالفت کی ایک یقینی وجہ یہ تھی کہ پاکستان نیوکلیائی ہتھیار بنانے والا پہلا اسلامی ملک تھا۔ اس مخالفت کو پاکستان میں انتہائی ناانصافی سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک، جس کے مدِ مقابل کے پاس بم ہو، وہی کرنا چاہے گا جو ہم نے کیا۔ درحقیقت ہمیں معلوم تھا کہ ہم امریکہ کے حفاظت فراہم کرنے کے وعدوں پر یقین نہیں کرسکتے تھے۔

[یہ بات پرویز صاحب نے بلکل سچ  کہی ہے جو پاکستانی عوام کی آواز ہے۔]

پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے مقابلے میں فوجوں اور طاقت کا توازن براقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ کامیاب مزاحمت کے لۓ یہ لازم ہے۔ 1974 تک یہ عسکری توازن روایتی افواج کے ذریعے قائم تھا، لیکن جب بھارت نیوکلیائی طاقت بن گیا تو ہماری قوتِ دفاع بہت کمزور پڑ گئ۔ ہمیں بہر صورت اس کا مداوا کرنا تھا۔ آپ کو یاد رکھنا چاہۓ کہ اس سے صرف تین سال پہلے 1971 میں بھارت نے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کردیا تھا۔

[ڈاکٹر خان صاحب نے تو ایٹمی صلاحیت دلا کر ہمیں بھارت کی برابری دلا دی مگر پرویز صاحب پچھلے کئی برسوں سے اپنے عوام کو یہ باور کراتے نہیں تھک رہے کہ ہمارا اور بھارت کا مقابلہ نہیں ہے اور بھارت ہم سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ باتیں ایک سول آدمی کی زبان سے تو اچھی لگتی ہیں مگر ایک فوجی کی زبان سے نہیں]۔

1974 سے 1998 تک بھارت کے ساتھ ہماری سرحدوں پر حالات مقابلتاً پرامن تھے۔ ہم نے 1947-1948، 1965 اور 1971 میں خونیں جنگیں لڑی تھیں۔ نیوکلیائی توازن بگڑنے کے بعد 24 سال کے دوران کشمیر اور سیاچن میں لائن آف کنٹرول پر کم شدت کی چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں، حالانکہ 1998 کے بعد ہم نے 1965 اور 1971 جسی بڑی جنگیں نہیں لڑیں، لیکن دو مرتبہ یعنی 1999 اور 2002 میں بڑی تعداد میں فوجوں کو حرکت میں لاۓ ہیں، شاید ہماری ایک دوسرے کو جنگ سے باز رکھنے کی قوت نے ہمیں بڑی جنگوں سے روکے رکھا ہے۔ ہمیں کبھی بھی کسی صورتِ حال کو، اس نقطہ پر نہیں پہنچنے دینا چاہۓ، جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ ہمیں عالمی امن کی خاطر مسٔلہء کشمیر کو حل کرنا چاہۓ۔

[پرویز صاحب نے کئی بار عوام کی خواہش کیخلاف کشمیر کے مسٔلے کے حل پیش کۓ ہیں یہ تو بھلا ہو بھارت کا کہ اس نے کوئی بھی حل قبول نہیں کیا۔ ابھی حال ہی میں پرویز صاحب نے کشمیر سے اپنا حق واپس لے لیا ہے۔ جب اس کیخلاف احتجاج بلند ہوا تو وزیرِ اطلاعات کو یہ بونگی مارنی پڑی کہ ایک بیان سے ملکوں کی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوجاتیں۔ اچھا ہوتا جو درانی صاحب پرویز صاحب کو اپنی غلطی کا احساس دلاتے اور انہی کی زبانی یہ بیان واپس لیا جاتا۔]

میں، اس باب میں بیان کروں گا کہ پاکستان نے نیوکلیائی اہلیت کیسے حاصل کی اور اپنی سرحدوں سے باہر نیوکلیائی پھیلاؤ کے خطرات پر بھی روشنی ڈالوں گا۔

1975 میں ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے، جو پیشے کے لحاظ سے ماہرِ فلزیات ہیں اور اس وقت نیدرلینڈ کی یورینکو نامی یورینیم افزودگی کے ایک کارخانے میں کام کررہے تھے، حکومتِ پاکستان کو اپنی خدمات پیش کیں۔ انہیں پاکستان واپس آنے کو کہا گیا۔ وہ یورینیم کی افزائش کرنے والی مشینوں کے نقشے اپنے ساتھ لے آۓ۔ ہم نے ان نقشوں کے مطابق اپنے یورینیم افزودگی کے کارخانوں میں ان مشینوں کے پرزوں کو یکجا کرکے نصب کیا۔ آنے والے برسوں میں ہم نے اپنی ضرورت کے سازوسامان اور تکنیکی معلومات کو زیرِ زمین ذرائع سے بھی حاصل کیا، جو خصوصاً یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں مصروف عمل تھے۔ انہی دنوں بھارت بھی اپنا نیوکلیائی اسلحہ تیار کر رہا تھا۔ عین ممکن ہے کہ ہم دونوں ایک ہی غیر سرکاری ذرائع سے سازوسامان خرید رہے ہوں۔

[یہاں سے اب پرویز صاحب باباۓ پاکستانی ایٹم بم خان عبدالقدیر خان کی تضحیک کرنا شروع کرتے ہیں اور یہ سارا باب ان کو ذلیل کرنے پر مختص کردیتے ہیں۔ اس تضحیک کا آغاز انہوں نے خان صاحب کو صرف ماہرِ فلزیات کہہ کر کیا ہے۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ خان صاحب کی مدد کے بغیر پاکستان ایٹمی طاقت نہیں بن سکتا تھا اور اسی وجہ سے اب انہیں نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔  دنیا لاکھ کوشش کرلے، خان صاحب کی عزت پاکستانی عوام کی نظروں میں کم نہیں کرسکے گی]۔

بھارت نے پہلے نیوکلیائی اور اس کے بعد میزائل صلاحیت کیوں حاصل کی؟ ظاہر ہے کہ وہ نہ صرف اپنے آپ کو علاقائی اور شاید عالمی طاقت کے طور پر دکھانا چاہتا تھا بلکہ خلیج، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک پر بالادستی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ پاکستان کیوں نیوکلیائی طاقت بنا؟ ظاہر ہے کہ ہمارے لۓ بھارتی خطرات سے اپنی حفاظت کرنی ضروری تھی۔ دنیا کچھ بھی سوچے، لیکن یہ ہماری واحد وجہ تھی۔ دنیا اور عالمی طاقتوں نے، بھارت کے مقابلے میں ہم پر ایسا نہ کرنے کے لۓ انتہائی اور شدید دباؤ ڈالا۔ میں یہ منطق کبھی نہیں سمجھ سکا اور میرے خیال میں یہ صریحاً ایک ناانصافی تھی۔ اگر دنیا برِصغیر میں نیوکلیائی ہتھیاروں کی دوڑ کے خلافت سنجیدہ تھی تو وہ غلط گھوڑے کی لگام کھینج رہی تھی۔ عالمی طاقتوں کو، بھارت کو نیوکلیائی طاقت بننے سے روکنا چاہۓ تھا۔ اگر بھارت نے پہلے ایسا نہ کیا ہوتا تو پاکستان یہ کام ہر گز نہ کرتا، ایسا ہونے کے باعث جنوبی ایشیا نیوکلیائی پھیلاؤ اور تکنیکی خریدوفروخت کے کالے دھندے میں ایک اہم مرکز بن گیا۔

پاکستان نے اپنا نیوکلیائی منصوبہ انتہائی خفیہ رکھا تھا۔ 1970 کی دہائی میں اس منصوبے کا انتظام وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کررہے تھے اور ان کا ڈاکٹرعبدالقدیرخان کے ساتھ براہِ راست رابطہ تھا۔ رقوم، اے کیو کو دی جاتی تھیں، جن کے بارے میں کوئی سوال نہیں پوچھے جاتے تھے اور خفاظت کے انتظامات بھی اے کیو کی زیرِ نگرانی تھے۔ بعد ميں جب صدر ضیاء الحق حکومت میں آۓ تو سائنسدانوں اور صدر کے درمیان وہی براہِ راست رابطہ رکھا گیا۔ 1988 میں ضیاء الحق کے انتقال کے بعد غلام اسحاق خان صدر بن گۓ۔ چونکہ وہ غیرفوجی تھے، لہذا انہوں نے فوج کے سربراہ کوبھی اس حلقے میں داخل کرلیا۔ اس کے بعد سے، صدر کے نمائندے کے طور پر چیف آف دی آرمی سٹاف نے ہمارے نیوکلیائی ترقیاتی منصوبے کا نظم ونسق سنبھال لیا اور اے کیو کے ساتھ براہِ است رابطہ قائم رکھا۔ اس کے بعد بھی طریقہء کار یہی رہا، لیکن طویل ہوگیا تھا۔ اب احکامات وزیرِ اعظم سے آرمی چیف کو جاتے، پھر وہاں سے ایک میجرجنرل کو، جن کا تقرر ڈائرکٹرجنرل آف کومبیٹ ڈویلپمنٹ کی حیثیت سے ہو تاتھا اور جنہیں اے کیو رپورٹ کرتے تھے۔ اس میں نہ تو کسی اور سرکاری محکمے ک دخل تھا اور نہ ہی کسی اور فوجی کا۔ فوج کے بارے میں یہ بات میں پورے وثوق کے ساتھ کہ سکتا ہوں، کیونکہ میں 1992 میں ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز بنا تھا اور یہ ایک ایسا عہدہ ہے جس کے فرائض میں فوجی منصوبہ بندی اور دوسرے عملی معاملات شامل ہیں، لیکن مجھے نیوکلیائی حلقے سے بالکل علیحدہ رکھا گیا تھا۔ اس پروگرام کو پوشیدہ اور ڈھکا چھپا رکھنے کے لۓ یہ بالکل صحیح راستہ تھا۔ ہر پاکستانی کی خواہش تھی کہ ہمارے پاس بم ہو۔ اے کیو خان اس کوشش میں اکیلے سائنسدان نہیں تھے، لیکن ان میں اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں میں نمایاں کرنے اور اپنے آپ کو مشہور کرنے کی بڑي صلاحیت تھی، جس کی وجہ سے عوام تقریباً یہ سمجھنے لگے تھے کہ تنِ تنہا وہ ہی بم بنا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے سیاسی قائدین جان بوجھ کر عوام کے سامنے گول مول بیان دیتے رہتے تھے۔ مجھے بھی حقیقت کا قطعاً علم نہیں تھا[کہ بم بنانے کے مرحلے میں ہم کس مقام پر ہیں] یہ نہ ہی ہمیں معلوم تھا اور نہ ہی سیاست دانوںکو، کیونکہ اے کیو خان کو کام کرنے کی مکمل آزادی تھی اور ان پر بھر پور اعتماد تھا، کسی کو کبھی یہ خیال بھی نہ آیا ک وہ اتنے غیرذمہ دار اور ناعاقبت اندیش ثابت ہوں گے۔

[خان صاحب کی تضحیک جاری ہے اور ان کیلۓ پرویز صاحب دنیا جہان کے گھٹیا الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ کر استعمال کررہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ خان صاحب کے بغیر پاکستان ایٹمی دھماکہ نہیں کرسکتا تھا۔ یہ خان صاحب کی ریڈ بک تھی جو وہ نیدرلینڈ سے اپنے ساتھ لاۓ اور اس کے نوٹس کی روشنی میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام آگے بڑھا]۔

میں نے 8 اکتوبر 1998 کو چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ سنبھالا۔ اس وقت ہمیں جوہری تجربات کۓ ہوۓ پانچ ماہ ہوچکے تھے اور اے کیو خان ایک قومی ہیرو تھے۔ مئ میں وہ ہمارے عوام اور دنیا کے لۓ اسلامی بم کے بانی بن چکے تھے۔ گویا بم کا بھی کوئی مزہب ہوتا ہے۔ مجھے اس طرح کا بیان ہی ذلت آمیز اور موجبِ آزار معلوم ہوتا ہے۔ کسی اور ملک کے بم کو ہندو، یہودی، عیسائی، سرمایہ دار یا کمیونسٹ کہہ کر نہیں پکارا جاتا تاتھا لیکن ہمارا بم اسلامی بن گیا، گویا ایسا نام دینے سے وہ ناجائز ہوجاۓ گا۔ یہ خیال ہی غیر منطقی اور انتہائی نسلی امتیاز کا عکاس ہے۔ یہ ایک مثال ہے کہ مسلمانوں کو متواتر، کس طرح ناانصافی کے ساتھ چھانٹ کر اجنبیت کا احساس دلایا جاتا ہے۔

[پرویز صاحب شکر ہے کہیں کہیں اس طرح کے سچ بول کر دنیا کو اس نسلی امتیاز کی طرف دھیان دلا رہے ہیں]۔

 بہر صورت، اب اے کیو خان میری ذمہ داری تھے۔ وزیرِ اعظم نوازشریف کو دی گئ میری پہلی تجاویز میں سے ایک یہ تھی کہ ہم اپنے فوجی منصوبہ بندی اور نیوکلیائی ترقیاتی اداروں کو سرکاری نگرانی میں لے لیں۔ ہم نے ان کے جی ایچ کیو کے دورے کے دوران انہیں اس سلسلے میں معلومات فراہم کیں اور میں نے ایک تحریری منصوبہ بھی پیش کیا، جس میں تجویز دی گئ تھی کہ ایک نیشنل کمانڈ اتھارٹی اور ایک نیا انتظامی ادارہ تشکیل دیا جاۓ، جو عبدالقدیرخان کی بجاۓ تمام عملی، مالی اور حفاظتی کاروائیوں کا ذمہ دار ہو، جن کے نگران اب تک وہی تھے۔ یہ تجویز اس وجہ سے بھی پیش کی گئ تھی کہ میں نے مختلف سائنسی اداروں، خصوصاً خان ریسرچ لیباریٹریز اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے درمیان ہم آہنگی کا مکمل فقدان دیکھا تھا۔ افسوس کہ اس تجویز کو منظور نہ کیا گیا اور نواز شریف کے دورِ حکومت میں اس پر کوئی عمل نہ ہوا۔

لیکن میں نے 1999 کے شروع میں مجوزہ سٹرٹیجک پلانز ڈویڎن کے ادارے کو جی ایچ کیو میں غیر رسمی طور پر تشکیل دیا۔ اس وقت تک کومبیٹ ڈویلپمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو بند کردیا گیا تھا۔ ابتدا میں ہی مجھے اے کیو کی مشتبہ سرگرمیوں کے اشارے ملے۔ پاکستان نے سرکاری سطح پر شمالی کوریا سے روایتی بیلسٹک میزائل مع ٹیکنالوجی کے تبادلے کے، نقد قیمت کے عوض خریدنے کا سودا کیا تھا۔ اس میں ہرگز یہ شامل نہیں تھا۔ اور میں زور دے کر دوبارہ کہتا ہوں کہ یہ ہرگز شامل نہیں تھا کہ اس سودے کے بدلے نیوکلیائی ٹیکنالوجی کا تبادلہ کیا جاۓ گا، جیسا کہ حقیقت سے ناآشنا چند مصنفین نے قیاس آرائیاں کی ہیں۔ مجھے ایک اطلاع ملی کہ شاید شمالی کوریا کے چند ایٹمی ماہرین، میزائل انجینئروں کے بھیس میں کے آر ایل آۓ ہیں اور وہاں انہیں برق رفتار مشینوں کے بارے میں معلومات فراہم کی گئ ہیں اور ان جگہوں کا دورہ بھی کرایا گیا ہے، جہاں وہ نصب ہیں۔ میں نے چیف آف جنرل سٹاف اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر کی موجودگی میں اے کیو خان کو باز پرس کے لۓ بلایا۔ انہوں نے فوراً اس بات سے انکار کیا۔ اس کے بعد، اس بارے میں کوئی اور اطلاعات بھی نہ آئیں، لیکن ہم بہت محتاط رہے۔

[یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ شمالی کوریا سے وفد بذریعہ طیارہ آۓ، وہ پاکستان میں رہے، پھر کے آر ایل کی سیر کرے اور فوجی انتظامیہ کو خبر تک نہ ہو]۔

جب 12 اکتوبر 1999 کو میں نے عنانِ حکومت سنبھالی اور تنِ تنہا مجھ پر اپنے تمام عسکری منصوبوں کی نگرانی کا بار آپڑا تو مجھے جلد ہی احساس ہوگیا کہ میں انہیں اتنا وقت نہیں دے سکتا تھا جتنا دینا چاہۓ۔ میں نے اپنے پرانے تجویز کردہ منصوبے کو بروۓ کار لانے کا فیصلہ کرلیا۔ فروری 2000 میں ہمارا ایٹمی ہتھیاروں کا منصوبہ میری حکومت سے منظور شدہ باقاعدہ ادارتی نگرانی کے تحت آگیا۔

اس نۓ ڈھانچے میں سب سے اوپر نیشنل کمانڈ اتھارٹی تھی [اور اب بھی ہے] جس کے شرکا صدر، وزیرِ اعظم، اہم وفاقی وزراء افواج کے سربراہان اور اہم سائنس دان ہیں۔ یہ ہمارے نیوکلیائی سازوسامان اور دوسرے ترقیاتی کاموں سمیت تمام منصوبوں کا ذمہ دار سب سے زیادہ بااختیار ادارہ ہے۔

سٹرٹیجک پلان ڈویڎن کے نام سے ایک نیا سیکرٹریٹ قائم کیا گیا، جو ایک فوجی ڈائریکٹر جنرل کے تحت ہے اور جو این سی اے کے منصوبوں اور نیوکلیائی سازوسامان کی نگہداشت میں اس کی مدد کرتاہے۔ سائنسی اداروں کے تمام مالی اور حفاظتی انتاظامات اس سیکٹریٹ نے اپنی تحویل میں لے لۓ۔ اس کے علاوہ فوج، بحریہ اور فضائیہ کی سٹرٹیجک فورس کمانڈ قائم کی گئیں جو این سی اے کی مرکزی نگرانی می نیوکلیائی سازوسامان کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔

اس کے نتیجے میں دو چیزیں ہوئیں، اول یہ کہ ہمیں اے کیو خان کی گزشتہ مہینوں اور برسوں میں کی گئیں خفیہ سرگرمیوں کے بارے میں کچھ اور معلومات حاصل ہوئیں حالانکہ یہ سرسری تھیں۔ دوم، اب ہمیں ان کی موجودہ سرگرمیوں کے بارے میں بہتر معلومات حاصل ہونے لگیں۔ ان میں سے چند پریشان کن تھیں اور خطرناک ثابت ہوسکتی تھیں۔ اس وقت تک وہ غیرملکی سفر کی اجازت نہيں لیا کرتے تھے۔ اب میں نے اصرار کیا کہ ہمیں نہ صرف یہ بتایا جاۓ کہ کہاں جارہے ہیں، بلکہ یہ بھی بتایا جاۓ کہ کیوں جارہے ہیں۔ اس کے باوجود مجھے معلوم ہوا کہ ایسے ممالک میں بھی گۓ ہیں، جہاں کی اجازت انہوں نے نہیں لی تھی۔ ایک دفعہ ہمیں معلوم ہوا کہ ایک چارٹرڈ ہوائی جہاز، جو میزائل لینے شمالی کوریا جارہا ہے، اس پر ان کی طرف سے کچھ غیرقانونی سامان بھی چڑھایا جانا ہے۔ ہماے ذرائع یہ نہ بتا سکے کہ وہ سامان کیا تھا، لیکن ہمیں شبہ ہوگیا تھا۔ ہم نے خاموشی سے چھاپہ مارا اور ہوائی جہاز کی روانگی سے پہلے اس کی تلاشی لی، لیکن بدقسمطی سے ہمیں کچھ نہ ملا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اے کیو کے لوگوں کو ہمارے چھاپے کی اطلاع مل گئ تھی اور مشتبہ سامان جہاز پر نہیں چڑھایا گیا۔

[یہ بھی جھوٹ لگتا ہے وہ اسلۓ کہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہمہ وقت ایک برگیڈئر جنرل ہوتا تھا جو ان کا بریف کیس تھامے رکھتا تھا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خان صاحب کی ایک ایک حرکت کی خبر آئی ایس آئی کو نہ ہو]۔

ایک اور مرتبہ مجھے بتایا گیا کہ اے کیو نے ایک دوسرے ملک سے اسلام آباد آنے کے لۓ چارٹرڈ کارگو پرواز کی اجازت مانگی ہے، جس کے دوران ہوائی جہاز ایران کے شہر زاہدان میں ایندھن لینے کے لۓ آتے جاتے رکے گا۔ یہ ہمیں پھر مشتبہ معلوم ہوا۔ جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو مجھے بتایا گیا کہ توپ خانے کے لۓ روایتی گولہ بارود لایا جا رہا تھا، لیکن اس سے ہ جواب نہ ملا کہ ہوائی جہاز کو آتے جاتے وقت ایران میںکیوں اترنا تھا؟ میں نے گولہ بارود کی اجازت دے دی، لیکن ایران میں اترنے کی اجازت نہ دی۔ مجھے بعد میں بتایا گیا کہ ہوائی جہاز پاکستان آیا ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ گولہ بارود لانا کسی اور مقصد کے لۓ ایک بہانہ تھا۔

[یہ بھی من گھڑت کہانی ہے صرف خان صاحب کو ذلیل کرنے کیلۓ گھڑی گئ ہے]۔

اسی طرح کے دوسرے واقعات کے نتیجے میں مجھے کافی حد تک یقین ہوگیا کہ اے کیو ایسے غلط کاموں میں مصروف ہیں، جو پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کے لۓ انتہائی مضر اور نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں، کیونکہ اے کیو خان کی مہارت ایٹمي ہتھیاروں سے متعلق تھی اور اس کے نتائج اور امکانات انتہائی خوفناک ہوسکتے تھے۔ انہیں بہت سختی سے انتباہ کیا گیا تھا، جس کے بعد وہ ہوشیار اور بظاہر مختاط ہوگۓ تھے۔ انہوں نے کچھ ایسے اقدامات بھی کرنے شروع کردیۓ، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنی سابقہ سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔

[ کہتے ہیں کہ خان صاحب کی دولت ميں 1990 کی دہائی میں اضافہ ہونا شروع ہوا اور انہوں نے بہت ساری پراپرٹی اسلام آباد میں خریدی اور رقم کاروبار میں بھی لگائی۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو کیا حکومت کو معلوم نہیں تھا کہ خان صاحب ان سارے کاموں کیلۓ رقم کہاں سے لارہے  ہیں؟ ظاہر ہے کہ خان صاحب اکیلے یہ کام نہیں کرسکتے تھے ]۔

اب یہ ظاہر ہوتا جارہا تھا کہ اے کیو مسٔلے کا جزو نہيں، بلکہ خود مسٔلہ ہیں ان کی موجودگی میں ہم ہرگز کے آرایل پربااختیار نہیں ہوسکتے تھے اور واحد راستہ یہ تھا کہ انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا جاۓ۔ اس وجہ سے میں نے 2000 میں یہ اصولی فیصلہ کیا کہ جب ان کی ملازمت کا معاہدہ مارچ 2001 میں ختم ہو، تب انہیں سبکدوش کردیا جاۓ۔ سوال یہ تھا کہ اس سبکدوشی کو کیسے عمل میں لایا جاۓ؟ عوام کے لۓ وہ ایک ہیرو کا دروجہ رکھتے تھے۔ ماضی ميں ہرمرتبہ ان کی ملازمت کے معاہدے کی تجدید ازخود ہوجاتی تھی۔ اس دفعہ میں نے معاہدے کی تجدیدِ نو کے خلاف فیصلہ کیا۔ یہی فیصلہ میں نے ڈاکٹر اشفاق احمد کے لۓ کیا، جو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین اور ایک انتہائی قابل، باوقار اور باعزت سائنس دان ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اشفاق اس خدشے کی بھینٹ چڑھ گۓ کہ یہ نہ کہاجاۓ کہ اے کیو کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔ مجھے اشفاق کے بارےمیں افسوس ہے، کیونکہ ابھی وہ ہمیں بہت کچھ دے سکتے تھے۔ 30 مارچ 2001 کو ڈاکٹر عبدالقدیرخان، کے آر ایل کے چیئرمین کے عہدے سے سبکدوش ہوگۓ اور اسطرح ان کا رابطہ ان کے مرکز سے مؤثر طریقے سے ٹوٹ گیا۔ اس تبدیلی کو قابلِِ برداشت بنانے کیلۓ انہیں وفاقی وزیر کے مساوی ایک مشیر بنا دیا گیا۔ عملی طور پر ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام میں اب ان کا کوئی عمل دخل نہیں رہا تھا۔ اخباروں میں اس معاملے پر کافی لے دے ہوئی، جو آہستہ آہستہ ٹھنڈی پڑ گئ، جبکہ میں اپنے فیصلے پر مطمٔن تھا۔ اے کیو کے رخصت ہونے کے بعد، ہمارے سائنسی اداروں نے مزید اچھی طرح اور اس ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا، جو ان کی موجودگی میں کبھی نہیں ہوتی تھی۔ وہ بڑے اکھڑمزاج اور خودپرست انسان تھے، نہ وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر کام کرسکتے تھے اور نہ ہی انہیں یہ گوارا تھا کہ ہمارے ایٹمی پروگرام کے کسی بھی شعبے سے متعلق کوئی دوسرا شخص ان سے زیادہ شہرت حاصل کرے۔ ان میں انا بہت تھی اور وہ اپنے آپ کو لوگوں ميں مقبول بنانے کے ماہر تھے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر ان سے نمٹنا آسان نہیں تھا۔

[جو برائیاں خان صاحب میں پرویز صاحب نے گنوائی ہیں ان کی تصدیق کہیں سے بھی نہیں ہوسکی۔ ان کے ساتھ کام کرنے والوں نے کبھی ان کی ان برائیوں کی نساندہی نہیں کی، بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ خان صاحب نے تندہی سے کام کیا اور سب کیساتھ ملکر کام کیا۔ جب تک خان صاحب کی دولت کے چرچے نہیں ہوۓ تھے وہ اپنے ساتھیوں میں قددر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ کہتے ہیں خان صاحب نے اپنے ساتھیوں کیساتھ ملکر دن رات اس طرح کام کیا کہ اس وقت وہ لوگ کئی کئی دن گھر نہیں جایا کرتے تھے بلکہ ادھر ہی سوجایا کرتے تھے۔ خان صاحب ایک خدا ترس اور مہربان مشہور تھے۔ انہوں نے ساتھیوں کی ہمت بندھائی اور ان کیساتھ ساتھ ان کے ساتھیوں نے اپنے ملک کیلۓ مال و دولت کی اس طرح قربانیاں دیں کہ وہ پرکشش تنخواہیں تیاگ کر صرف پاکستن کی خدمت کے جزبے سے معمولی تنخواہ پر کام کر رہے تھے]۔