بین الاقوامی تعلقات – حصہ اول

911 سے قبل میری توجہ داخلی استحکام اور معاشئ و سماجی ترقی پر مرکوز تھی، لیکن 911 نے دنیا ہی بدل دی۔ اب یہ انتہائی پر تشدد ہوگئ ہے، خود کش حملے معمول بن گۓ ہیں۔ میں کبھی بھی عراق پر حملے کا حامی نہیں تھا، کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ اس سے انتہاپسندی کو فروغ ملے گا اور ایسا ہی ہوا۔ عراق جنگ کی وجہ سے دنیا محفوظ ہونے کی بجاۓ پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ہوگئ ہے۔ جب مسلمان، مغرب والوں سے تہزیبوں کے ٹکراؤ کے امکان کی باتیں سنتے ہیں تو اس ميں کیا تعجب ہے، اگر وہ بے چینی سے یہ سوچیں کہ کہیں یہ صلیبی جنگوں کے ایک نۓ دور کی ابتدا تو نہیں۔

پاکستان میں موجودہ تشدد کی فضا، ہمارے علاقے میں استحکام کا فقدان، تمام دنیا میں پھیلا ہوا تشدد، اسلامی ملکوں کی غیر مستحکم صورتِ حال، افسوس کہ تمام تشدد مسلمانوں پر ہی ہورہا ہے۔ ميں نے اس پر کافی غور کیا ہے۔

[صرف غور ہي کيا ہے عملي طور پر کچھ نہيں کيا ]۔

ایک رات، جب میں اپنے اسٹڈی روم میں بیٹھا انہی خیالات میں گم تھا کہ میرے ذہن میں اعتدال پسند روشن خیالی کا تصور ابھرا۔ تشدد روکنے کے لۓ ہمیں ایک عالمی حل کی ضرورت ہے۔ اسلامی دنیا یں افراتفری کا ایک اہم سبب وہ پرانے سیاسی تنازعات ہیں، جو ابھی تک حل نہیں ہوۓ اور جن کی وجہ سے وہاں کے عوام ناانصافی، اجنبیت، احساسِ محرومی، بے بسی اور مایوسی کا شکار ہیں۔ اس صورتِ حال کو اس حقیقت سے مزید تقویت ملتی ہے کہ ہر سطح پر اسلامی ملکوں میں سماجی ماحول سب سے ابتر ہے۔ غربت اور جہالت کی موجودگی میں، سیاسی احساسِ محرومی نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کا ایک دھماکا خیز مرکب تیار کردیا ہے۔ اگر مسلم معاشرے ان حالات سے چھٹکارا اور نجات پانا چاہتے ہیں تو ان کےلۓ انتہاپسندی اور دہشت گردی سے کنارا کش ہونا ضروری ہے لیکن ساتھھ ہی ساتھھ ان کے سیاسی تنازعات کے منصفانہ حل بھی ضروری ہیں۔

[پرویز صاحب کو اعتدال پسند روشن خیالی کا خیال اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھے بیٹھے آیا ۔ اچھا ہوتا اگر پرویز صاحب اس سے قبل کچھ تحقیق کرلیتے اور دنیا میں مسلمانوں کی حالتِ زار پر غور کے بعد کوئی پلان بناتے۔ بھلا اس طرح کے خیالوں سے کبھی کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں جو پرویز صاحب کی سوچ ہے اس کا حل صرف اعتدال پسند روشن خیالی ہی نہیں بلکہ اور بہت کچھ ہے۔ پرویز صاحب نے جہاں بھی مسلمانوں کا رونا رویا ہے صرف لفظوں کی حد اور کوئی ایسا عملی قدم نہیں اٹھایا جس سے دنیا کے مسلمانوں کا نہ سہی پاکستان کے مسلمانوں میں بھی کوئی انقلاب آیا ہو۔ جس طرح جنرل ضیا کا سارا دورِ حکومت افغان جنگ کی نظر ہوگیا اسی طرح لگتا ہے پرویز صاحب کا دورِ حکومت دہشت گردی اور انہتاپسندی ختم کرنے کی نظر ہوجاۓ گا]۔ 

اعتدال پسند روشن خیالی ایک دو شاخۂ حکمتِ عملی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس میں سب کے لۓ جیت ہی جیت ہے۔ اس کی ایک شاخ مسلم دنیا کی ذمہ داری ہے جو دہشت گردی اور انتہاپسندی کو رد کرکے داخلی، سماجی اور معاشی ترقی پر مبنی ہے۔ دوسری شاخ، جس میں مغرب کی عمومماً اور امریکہ کی ذمہ داری خصوصاً ہے کہ ان تمام سیاسی تنازعات کا منصفانہ حل تلاش کرنا ہے، جن کا شکار مسلم معاشرے ہیں۔ تمام دنیا میں مسلمانوں سے انصاف نہ صرف کیا جانا چاہۓ بلکہ وہ انصاف ہوتے ہوۓ نظر بھی آنا چاہۓ۔ بین الاقوامی ہیجانی صورتِ حال کی جڑ “مسٔلہء فلسطین” ہے۔ اسی طرح ایٹمی جنگ کے خطرات سے بھرپور “مسٔلہء کشمیر” ہے، جس کے فوری حل کی ضرورت ہے تاکہ جنوبی ایشیا میں مستقل امن قائم ہو۔

میں نے تمام دنیا میں اعتدال پسند روشن خیالی کو پھیلانے کے لۓ اپنی سی ان تھک کوششیں کی ہیں۔ اگرچہ اس سلسلے میں بہت سے لوگوں کا ردِ عمل مثبت ہے، لیکن حقیقی ترقی کی رفتار سست ہے۔ میری سفارتی کوششیں دو محاذوں پر جاری ہیں۔ اول، تو میں عالمی قوتوں سے کہہ رہا ہوں کہ وہ مسٔلہء فلسطین اور مسلٔہء کشمیر کو حل کرنے کے لۓ زیادہ سے زیادہ کوششیں کریں۔ میرے خیال میں اب حالات اس نہج پر ہیں کہ یہ دونوں مسائل حل کۓ جاسکتے ہیں۔ دوسری طرف میں کوشش کررہاہوں کہ اسلامی ممالک اپنی شاخ کے تحت قائم ہونے والی ذمہ داریوں پر، جہاں تک ممکن ہو عمل درآمد کریں اور اگر ممکن ہو تو امریکہ اور مغرب کی ذمہ داریوں کے نتائج برآمد ہونے سے پہلے ہی۔ اگر مسلم اور مغربی ممالک متفق ہوں تو بجاۓ دو شاخہ حکمتِ عملی کے، جس میں ہر شاخ اپنی اپنی ذمہ داری اپنی اپنی رفتار سے پوری کرنے یا نہ کرنے میں آزاد ہو، یہ حکمتِ عملی ایک ہم آہنگ عمل میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

مجھے خوشی ہے اور فخر بھی کہ اعتدال پسند روشن خیالی پر میری تجاویز 2004 میں ملائیشیا میں منعقد اسلامی رہنماؤں کی کانفرنس میں قبول کر لی گئیں۔ اس کانفرنس میں انتہاپسنی اور دہشتگردی کو بھی رد کیا گیا۔ میری او آئی سی کو ازسرِ نو منظم کرکے اسے طاقتور اور متحرک بنانے کی تجویز، تاکہ وہ ہماری معاشی اور سماجی مشکلات کو کم کرسکے، بھی قبول کرلی گئ۔ اس تجویز کے مطابق، رکن ممالک کی طرف سے نامزد کۓ گۓ معزز اراکین کا ایک گروپ او آئی سی کی تنظیمِ نو پر کام کرنے کے لۓ تشکیل دیا گیا۔ بعد ازاں دسمبر 2005 میں خصوصی کعبہ سمٹ مکہ میں منعقد ہوئی۔ خصوصی کعبہ سمٹ میں اسی گروپ کو او آئی سی کے دستورالعمل پر نظرثانی کرنے کی ذمہ داری دی گئ۔ اس طرح مسلم ممالک سے متعلق میری مجوزہ پہلی شاخ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔ مجھے مغربی ممالک سے متعلق دوسری شاخ کے کام کی رفتار پر فکر ہے کیونکہ تنازعات کو حل کرنے کا لمحہ آ پہنچا ہے۔ اگر تمام متعلقہ افراد اس لمحے کا فوری فائدہ نہیں اٹھاتے تویہ گزر جاۓ گا اور دنیا میں امن و سکون لانے کا ایک نادر موقع ہاتھ سے نکل جاۓ گا۔ یہ ایک ایسا نقصان ہوگا، جس کے لۓ نہ تو خدا،، اور نہ تاریخ ہمیں معاف کرے گی۔

[او آئی سی کانفرنس لگتا ہے صرف اتحادیوں کے ایجینڈے کو فروغ دینے کیلۓ منعقد ہوئی اور اس میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کو ہی موضوع بنایا گیا۔ اسے ایجینڈے کی تکمیل کیلۓاو آئی سی کی تشکیلِ نو شروع ہوئی اور اسی لۓ یہ میٹنگ بند کمرے میں ہوئی]۔

کچھ نکتہ چین، اعتدال پسند روشن خیالی کے اصل معانی ہی غلط سمجھتے ہیں اور غلط بیان کرتے ہیں۔ ان کا اعتراض ہے کہ روایتی اسلامی نظریے کی ہی ایک بگڑی ہوئی تشریح ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میں کوئی مزہبی عالم نہیں ہوں، لیکن ایک مسلمان کی حیثییت سے میں اسلام کی روح اور پیغام کو خوب سمجھتا ہوں، اگرچہ میں علمی طور پر اس کی باریکیوں سے پوری طرح شناسا نہیں ہوں۔ بہر طور اعتدال پسند روشن خیالی کا اسلام اور اس کی تعلیمات سے کوئ تعلق نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق مسلمانوں اور ان کی نشاطِ ثانیہ سے ہے۔

[عجیب منطق ہے کہ اعتدال پسند روشن خیالی کا اسلام سے تعلق نہیں ہے بلکہ مسلمانوں سے ہے۔ کیا اسلام اور مسلمان دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ اگر اس کا تعلق اسلام سے نہيں ہے تو پھر يہ کيا چيز ہے؟ اعتدال پسند روشن خيالي کا تعلق اگر پرويز صاحب اسلام سے جوڑ ديتے تو کونسي قيامت آجاتي]۔

دنیا میں، خصوصاً اسلامی دنیا ميں امن قائم کرنے کے لۓ جنوبی ایشیا میں امن قائم ہونا ضروری ہے۔ میں نے بھارت کے ساتھھ صلح صفائی کے لۓ آگے بڑھ کر اقدامات کۓ ہیں۔ پاک بھارت تنازعہ، جنوبی ایشیا میں معاشی اور سماجی ہم آہنگی اور ترقی کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ جب دو ہاتھیوں کی لڑائی ہوتی ہے تو گھاس روندی جاتی ہے۔ میں نے پچھلی نصف صدی میں ہمارے آپس کے غیردوستانہ تعلقات کے علاوہ ہماری ایک دوسرے سے جنگیں، سیاچن، کارگل اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کے بارے میں بہت گہرائی سے سوچا ہے۔ ان تمام عسکری معرکوں کا مجموعی نتیجہ یہی نکلا ہے کہ ہر بار دونوں حریف بات چیت کی میز پر واپس آجاتے ہیں۔ لیکن اب فوجی کاروائی کا کوئی فائدہ نہيں ہے۔ ہمارے آپس کے تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ اب مصلحت سے ہی آگے بڑھنا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بھارت کو بھی یہ احساس ہوگیا ہے کہ پاکستان کے خلاف اب وہ فوجی دباؤ کا حربہ استعمال نہیں کرسکتا۔ 2001 میں ہی میرا یہ خیال تھا کہ اب دنیا  پلٹنے کا وقت آگیا ہے۔

[ہندوستان کے ساتھ اختلافات ختم کرنے کا خیال صرف پرویز صاحب کا یکطرفہ خيال ہے۔ ابھی تک وہ کشمیر کے حل کیلۓ کئی تجاویز دے چکے ہیں مگر بھارت کی طرف سے مکمل خاموشی طاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر کالم نگار پرویز صاحب کو اب مشورہ دینے لگے ہیں کہ اتنا بھی نہ گرو کہ پھر اٹھا ہی نہ جا سکے۔ ابھی 11 دسمبر کو دفترِ خارجہ نے کشمیر کو پاکستان کا حصہ ماننے سے ہی انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ” کشمیر بنے گا پاکستان” کا نعرہ پاکستان کا نہیں بلکہ کشمیریوں کا تھا۔ اس اعلان کے باوجود بھارت ایک قدم بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہے بلکہ اس نے پھر دھرایا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے]۔

میں نے 2001 کے اوائل میں، بھارت میں آنے والے شدید زلزلے کے بعد آپس کے تعلقات میں بہتری لانے کا پہلا موقع دیکھا، میں نے وزیرِ اعظم واجپائی کو ٹيلی فون کرکے زلزلے پر اظہاِ افسوس کیا اور پاکستان نے امدادی اشیا مع ادویات بھیجیں۔ س سے تعلقات میں گرم جوشی آئی اور مجھے بھارت کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ میں 14 جولائی 2001 کو دہلی پہنچا۔

عمومی سطح پر، مجھے بھاریتوں کا رویہ پر امید نظر آيا۔ صہبا اور میں جہاں بھی جاتے تھے، وہاں گرم جوشی اور خیرسگالی کا مظاہرہ ہوتا تھا، خواہ اس ہوٹل کے ملازمین ہوں جہاں ہم ٹھہرتے تھے یا سرکاری افسران، جن سے ہم ملے ہوں یا عام بھارتی ہوں یا وہ چند خاندان جو اب ہمارے آبائی گھر نہووالی حویلی میں سکونت پزیر ہیں۔ امید کی ایک فضا تھی۔ ہم نے بھی اسی گرم جوشی کا اظہار کیا۔ میں کھلے دماغ ، امید اور سمجھوتے کے جزبے کے ساتھ بھارت گیا تھا۔

15 جولائی 2001 کو دہلی میں ہماری آمد اور سفارتی رسومات اور خوش گپپیوں کے بعد اگلے روز وزیرِ اعظم واجپائی سے آگرہ جیسے تاریخی شہر ميں ہماری ملاقات ہوئی۔ تاج محل جو کہ آگرہ میں، محبت کی ایک ایسی یادگار ہے جو اپنی مثالی تعمیر اور ابدی حسن کی وجہ سے دنیا کے عجائب میں سے ایک ہے۔ ہم نے باضابطہ بات چیت 16 جولائی 2001 کی صبح کو شروع کی۔ اس کی ابتدا حوصلہ افزا تھی، لیکن انہتا مایوس کن۔ ظہرانے سے پہلے اور اس کے بعد، شروع میں، تنہائی میں اور اس کے بعد ہمارے اپنے اپنے وزراۓ خارجہ کے ہمراہ دو طویل ملاقاتوں میں ہم نے ایک مشترکہ اعلامیے کا مسودہ تیار کیا۔ اس علامیے میں دہشت گردی کی مزمت اور باہمی تعلقات میں بہتری لانے کیلۓ تنازعہء کشمیر کو حل کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ میرے خیال میں یہ مسودہ انتہائی مناسب الفاظ میں لکھا گیا، متوازن اور ہم دونوں کیلۓ قابلِ قبول تھا۔ دستخط کرنے کی تقریب ہوٹل جی پی پیلس میں، جہاں وزیرِ اعظم واجپائی ٹھہرے ہوۓ تھے اور جہاں ہم نے بات چیت کی تھی، اسی سہ پہر کو ہونی قرار پائی تھی۔ ہوٹل میں تیاریاں مکمل تھیں، یہاں تک کہ ایک میز اور دو کرسیاں جن پر بیٹھھ کر ہمیں دستخط کرنے تھے، لگا دی گئی تھیں۔ ہوٹل کا عملہ اور آۓ ہوۓ مہمان انتہائی شاداں و فرحاں نظر آرہے تھے۔

میں وزیرِ اعظم سے رخصت ہو کر ہوٹل امر ولاز جہاں ہم ٹھرے ہوۓ تھے، اپنا قوی لباس شلوار قمیض تبدیل کرنے آیا۔ دستخطوں کی تقریب کے بعد میرا ارادہ اجمیر شریف جا کر خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر فاتحہ پڑھنے کا تھا۔ میں نے دیکھا کہ امرولاز کا عملہ بھی اتنا ہی خوش و خرم تھا۔ ہم اپنے دورے کے نقطہء عروج پر پہنچ رہے تھے، لیکن ایک گھنٹے کے بعد جب میرے وزیرِ خارجہ اور سیکریٹری خارجہ نے مجھے مطلع کیا کہ بھارتی معاہدے سے پیچھے ہٹ گۓ ہیں، تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔

“یہ کیسے ہوسکتا ہے، آخر کیوں؟” ميں نے پوچھا

” سر، کابینہ نے اسے نامنظور کردیا ہے۔” جواب آیا

 “کون سی کابینہ؟” میں نے کہا۔ ” اگرہ میں توکوئی کابینہ نہیں ہے۔”

[فوجي ڈکٹيٹر اگر “کون سي کابينہ” والا سوال کرے گا تو ٹھيک کرے گا کيونکہ وہ کيا جانے کہ جمہوريت کيا ہوتي ہے اور جمہوريت ميں فيصلے کيسے کۓ جاتے ہيں۔ اسے تو يہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر ملک ميں ايک ہي شخص آخري فيصلہ کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ يہي غلط فہمي تھي جس کي بنا پر صدر صاحب نے کہا کہ “آگرہ ميں توکوئي کابينہ نہيں ہے”]۔

مجھے بیحد غصہ آیا اور میری پہلی سوچ یہ تھی کہ فوراً اسلام آباد کے لۓ روانہ ہو جاؤں۔ دونوں سفارت کاروں نے مجھے ٹھنڈا کیا اور کہا کہ “مسودہ دوبارہ لکھنے کے لۓ کچھھ وقت دیا جاۓ۔” اور میں نے بادلِ نخواستہ اجمیر شریف کی زیارت منسوخ کردی۔

[اجمير شريف کا دورہ پرويز صاحب اسلۓ نہيں کرنا چاہتے تھے کہ وہ پير پرست تھے بلکہ يہ خالصتاً ايک سياسي سٹنٹ تھا جس طرح ہمارے سيکولر يا دہريۓ حکمران جاہل عوام کے دکھاوے کيلۓ عمرہ کرنے جاتے ہيں اور کعبہ کي سير کي تصاوير اخباروں ميں چھپواتے ہيں]۔

جملوں اور الفاظ کے مناسب استعمال کے بارے میں بحث و مباحثے کے بعد مسودہ دوبارہ لکھنے میں دو تین گھنٹے مزید لگے، لیکن میرے رفقا واپس آۓ اور انہوں نے کامیابئ کا اشارہ دیا۔ انہوں نے مجھے نیا مسودہ دکھایا، جسے میں نے منظور کرلیا۔ میرے خیال میں مسودہ اب بھی ہماری خواہشات سے مطابقت رکھتا تھا، سواۓ اس کے کہ اب اس کی زبان مختلف تھی۔ وہ دوسرے ہوٹل واپس گۓ تاکہ مسودے کی حتمی اور درست کاپیاں بنالیں۔ میں نے اپنی بیوی کو یقین دہانی کرائی کہ انشااللہ اگلے روز آگرہ ڈکلیئریشن کی شہ سرخیاں اخباروں میں ہوں گی۔ لیکن یہ نوشتہء تقدیر نہ تھا۔ جسیے ہی میں دستخطوں کی تقریب کے لۓ روانہ ہونے لگا، مجھے ایک اور پیغام ملا کہ بھارتی دوبارہ پیچھے ہٹ گۓ ہیں، یہ ناقابلِ یقین تھا۔ میں نے فوراً روانہ ہونے کا فیصلہ کرلیا لیکن میرے وزیرِ خارجہ نے مجھےچلنے سے پہلے وزیرِ اعظم واجپائی کے پاس جانے کے لۓ آمادہ کرلیا۔ میں اپنی خواہش کے برعکس، ان سفارتی آداب کو پورا کرنے کےلۓ تیار ہوگیا۔ اسی وقت میں نے ذرائع ابلاغ کو مطلع کرادیا کہ میں ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس منعقد کروں گا۔ مجھے بعد میں علم ہوا کہ اس کی اجازت نہیں دی گئ۔ ذرائع ابلاغ کا کوئی نمائندہ نہ تو واجپائی کے ہوٹل میں اور نہ ہی میرے ہوٹل میں داخل ہونے دیا گیا۔ تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آزادیٓ اظہار کا یہ حال تھا۔

[بھلا ايک مہمان ميزبان کي مرضي کے بغير اس کے ملک ميں کيسے پريس کانفرنس کرسکتا ہے۔ يہي وجہ تھي کہ بھارت نے پرويز صاحب کو پريس کانفرنس سے بات نہيں کرنے دي]۔

میں اس رات تقریباً گیارہ بجے وزیرِ اعظم واجپائی سے انتہائی سنجیدہ ماحول میں ملا۔ میں انہیں صاف صاف بتایا کہ غالباً ہم دنوں سے بالا تر کوئی فرد ہے، جس کے  پاس ہمارے فیصلوں کو رد کرنے کی طاقت ہے۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ آج ہم دونوں کی تحقیر ہوئی ہے۔ وہ خاموش بیٹھے رہے۔ میں اچانک اٹھا، جلدی سے ان کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چل دیا۔

[کہتے ہيں کہ اس مسودے پر اختلاف صرف کشمير کي تحريکِ آزادي کي تعريف پر تھا۔ بھارت چاہتا تھا کہ کشمير کي آزادي کي تحريک کو دہشت گردي کہا جاۓ اور مجاہدوں کو دہشت گرد مگر جنرل صدر مشرف صاحب يہ بات ماننے کيلۓ تيار نہيں تھے]۔

ہر انسان کی زندگی میں ایک لمحہ آتا ہے اور اگر وہ انسان اس لمحے کو پکڑ لے تو تاریخی واقعہ وجود میں آجاتا ہے۔ واجپائی اس لمحے کو پکڑنے میں ناکام رہےاور تاریخ میں اپنا مقام کھو دیا۔ جیسے ہی میں اور میری بیوی ہوٹل سے روانہ ہوۓ، ہمیں ہوٹل کے عملے کے چہروں پر افسردگی اور ناامیدی صاف اور واضح نظر آرہی تھی۔ جب ہماری گاڑی ہوٹل سے نکل کر سڑک پر مڑی تو مجھے یہ دیکھھ کر تعجب ہوا کہ ذرائع ابلاغ کے سینکڑوں نمائندے سڑک کے دونوں اطراف میں جمع تھے، جنہیں لاٹھی بردار پولیس روکے ہوۓ تھی۔ ہم اس مجمع کے درمیان تقریباً دو سو گز تک گۓ اور اس دوران فوٹوگرافرز میرے چہرے کے تاثرات کیمروں میں محفوظ کرتے رہے۔ اس افسوس ناک اور بے کار واقعہ کے ساتھھ ہی ہماری تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کا پہلا باب ختم ہوا۔

[پتہ نہيں پرويز صاحب اس مسودے کو تاريخي کيوں کہ رہے ہيں۔ يہ مسودہ نہ تو کوئي باقاعدہ معاہدہ تھا، نہ کشمير کے مسٔلے کا حل، بلکہ سيدھا سادھا ايک بيان تھا جو دورے کے بعد رسمي طور پر جاري کيا جاتا ہے]۔

2002 ميں دونوں ملک ایک انتہائی تناؤ کے دور سے گزرے، جب بھارت نے جارحانہ انداز میں اپنی فوجیں سرحد پر جمع کردیں اور ہماری افواج ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے سامنے ڈٹی رہیں۔ ہم اپنی تمام افواج اگلے مورچوں پر لے آۓ۔ یہ آمنا سامنا 10 ماہ رہا، پھر بھارتیوں نے آنکھ جھپکی اور سرحدوں سے واپسی اختیار کی۔

[يہاں پر پرويز صاحب کو باباۓ پاکستاني ايٹم بم کا شکريہ ادا کرنا چاہۓ تھا جن کي بدولت بھارت حملہ کرنے سے باز رہا۔ اگر پاکستان کے پاس ايٹم بم کا رعب نہ ہوتا تو بھارت پاکستان کے مزيد ٹکڑے کرنے کيلۓ حملہ کرديتا]۔

 میں نے جنوری 2002 میں سارک کانفرنس میں جو کھٹمنڈو، نیپال میں منعقد ہوئی تھی، ایک اور سفارتی کوشش کی۔ علاقے کے تمام سربراہان ایک لمبی میز کے پیچھے بیٹھے ہوۓ تھے اور اپنی اپنی باری پر تقریريں کررہے تھے۔ میں اپنی تقریر کرنے کے بعد اچانک میز کی دوسری طرف بیٹھے ہوۓ وزیرِ اعظم واجپائی کے سامنے پہنچ گیا او اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھایا۔ ان کے پاس اٹھ کر کھڑے ہونے اور ہاتھ ملانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ افسر شاہی سے بھرے ہوۓ ہال میں حیرت کا ایک مدھم سا شور [میرے خیال میں ستائش کا] اٹھا کہ میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیرِ اعظم پر بازی لے گیا، لیکن میری نیت ان پر سبقت لے جانے کی ہرگز نہیں تھی، بلکہ میرا ارادہ آگرہ میں پیدا ہونے والے تعطل کو ختم کرنا تھا۔ مجھے انہتائی مسرت ہوئی، جب اس مصافحے کا ہماری امید کے مطابق اثر ہوا۔ وزیرِ اعظم واجپائی نے جنوری 2004 میں پاکستان میں منعقد ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں آنے کا فیصلہ کیا۔ ہمای خوشگوار ملاقات ہوئی اور اس مرتبہ ایک تحریری مشترکہ سمجھوتے پر اتفاق ہوگیا جو اعلان اسلام آباد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ مخلوط بات چیت کے تحت امن کے عمل کو آگے بڑھایا جاۓ جس میں جموں کشمیر کا تنازعہ شامل ہو۔ ایک مرتبہ پھر مقدر میں نہیں تھا۔

[پرويز صاحب کا اپني سيٹ سے اٹھ کر واجپائي کے پاس جانا ايک بزدلي سمجھا جاۓ گا۔ اس ميں کونسي سبقت لے جانے والي بات تھي۔ ہر چھوٹا آدمي بڑے آدمي کے پاس جاتا ہے۔ دراصل پرويز صاحب دل سے بھارت کي سبقت کو قبول کرچکے ہيں اور ان کے اب تک کےاقدامات اسي کي طرف اشارہ کرتے ہيں]۔

اس سے قبل کہ مخلوط بات چیت زور پکڑتی، بھارت میں قبل از وقت انتخابات منعقد ہوۓ اور وزیرِ اعظم واجپائی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹي ہار گئ۔ سونیا گاندھی کی کانگریس پارٹی نے دوسری جماعتوں کی حمایت سے ایک نئ اتحادی حکومت بنائی، جس میں وہ خود نہیں بلکہ من موہن سنگھھ وزیرِ اعظم بنے۔ اس سے امن کے عمل کا تمام منظر تبدیل ہوگیا۔ مجھے یہی خیال آیا کہ کاش ہم نے ایک سال پہلے آگرہ میں یہ موقع نہ کھویا ہوتا۔

میں نے سونیا گاندھی اور نۓ وزیرِ اعظم کو مبارک باد کے ٹيلی فون کۓ اور ساتھھ ہی ساتھھ سفارتی تعلقات کے بارے میں اندازے لگانے شروع کردیۓ۔ مجھے محسوس ہوا کہ ان کا ردِ عمل بہت مثبت تھا۔ میں نے یہ بھی مناسب سمجھا کہ واجپائی کو ٹیلی فون کروں اور ان پر زور ڈالوں کہ وہ امن کے اس عمل کی، جسے ہم دونوں نے شروع کیا تھا، حزبِ اختلاف میں بیٹھھ کر بھی تائید کرتے رہیں۔ انہوں نے ایسا کرنے کا وعدہ کیا۔

[پرويز صاحب نے اپنے بھارت کے دورے کے دوران اور بھارت کيساتھ تعلقات بڑھانے کي کوششوں کے دوران يہ سوچنے کي کوشش ہي نہيں کي کہ يہ جمہوريت ہي ہے جس کي وجہ سے بھارت ہم سے آگے ہے۔ وہاں پر فيصلے فردِ واحد نہيں کرتا بلکہ کابينہ کرتي ہے]۔