سماجی حلقہ

1999 ميں میں دوپریشان کن معاملات میں گھرا ہوا تھا، جن میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ اور یہ فیصلہ ہماری مخدوش اقتصادی صورتِ حال اور محدود مالی وسائل کی وجہ سے مشکل صورت اختیار کرچکا تھا۔ آیا ہماری حکمتِ عملی یہ ہو کہ صحت اور تعلیم کو زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کۓ جائیں یا اقتصادی مقاصد کے لۓ ترقیاتی منصوبوں کو۔ میں نے آخرالزکر کے حق میں فیصلہ کیا کیونکہ معیشت کو اس وجہ سے فروغ دینے کی ضرورت تھی تاکہ اس سے جو آمدنی حاصل ہو، وہ سماجی شعبے میں خرچ کی جاسکے۔ یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی اور دو تین سال میں ہی ہماری معیشت اتنی بہتر ہوگئ کہ ہم صحت اور تعلیم کے شعبے کے لۓ زیادہ رقم مختص کر سکے، خصوصاً تعلیم کے شعبے میں۔

[پرویز صاحب اگر حقیقت بیانی سے کام لیتے تو کہہ سکتے تھے کہ غریب ملک جن پر ڈکٹیٹر مسلط کردیۓ جاتے ہیں کبھی بھی صحت اور تعلیم کو اولیت نہیں دیتے کیونکہ اگر وہ ان دو شعبوں پر توجہ دیں گے تو ترقی کرنا شروع کرديں گے جو قرض دینے والے ترقی یافتہ ملکوں کو گوارہ نہیں ہوتا۔ پرویز صاحب کی معیشت کی مضبوطی کے دعوے کے بعد بھی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ تعلیم اور صحت پر دفاع کے مقابلے میں بہت ہی کم توجہ دی گئی ہے]۔

ہم نے شعبۂ تعلیم کا جس کی حالت ناگفتہ بہ تھی ایک کلی جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ اسے ہر سطح پر ٹھیک کیا جاۓ۔ تعلیمی سیڑھی میں سب سے نچلی سطح پر ہم نے تعلیم کی شرح بڑھانے کا فیصلہ کیا، جو اس وقت صرف 48 فیصد تھی اور طے کیا کہ تعلیم عام کی جاۓ، خصوصاً لڑکیوں کے لۓ اور تعلیمِ بالغاں پر بھی زور دیا جاۓ۔

تعلیمی سیڑھی کا دوسرا قدم پرائمری اور سیکنڈری سطح کا ہے۔ اس میں بہتری لانے کۓلۓ ہم نے نصابِ تعلیم کی اصلاح، امتحانوں کو بہتر طریقہٓ کار رائج کرنے اور اساتزہ کی تربیت پر زور دینے کا فیصلہ کیا۔ میں نے حکومتی اور عوامی شراکت داری سے ایک ادارہ تشکیل دیا، جس کا نام نیشنل کمیشن آف ہیومن ڈویلپمنٹ رکھا، جس کا کام صحت، تعلیم اور عوامی سطح پر بڑی تعداد میں لوگوں کو سماجی ذمہ داریوں کے لۓ تیار کرنا تھا۔ یہ کمیشن جو دسمبر 2006 تک پاکستان کے 110 اضلاع میں کام شروع کردے گا، اپنے منشور پر عمل پیرا ہے۔ اس نے اس وقت تک 20800 تعلیمِ بالغاں کے مراکز اور مقامی دیہاتیوں کی مدد سے تربیتی سکول کھولے ہیں، جن میں مقامی لڑکے اور لڑکیاں بطور استاد ملازمت کررہے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ اس کام کا سہرا ڈاکٹر نسیم اشرف کے سر ہے، جو ایک متحرک پاکستانی امریکن میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور انہوں نے ہی مجھے اس منصوبے کی تجویز دی اور وہی اس کمیشن کے سربراہ ہیں۔

[نصابِ تعلیم کو جتنا بھی تبدیل یا بہتر کیا گیا ہے اس کے پیچھے ہمارے آقاؤں کا ہاتھھ ہے جو چاہتے ہیں کہ ہماری اگلی نسل ایسی تعلیم حاصل کرے جس سے یہ نسل آقاؤں کے طابع رہے اور مستقبل میں خطرہ ثابت نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے آقاؤں نے تعلیمی شعبے کیلۓ کافی امداد بھی فراہم کی ہے۔  ڈاکٹر نسیم اشرف جو پرویز صاحب کے دوست ہیں اور امریکی پاکستانی ہیں اسی خاص مقصد کیلۓ پاکستان امپورٹ کۓ گۓ۔ اب جب ان کا کام ختم ہوگیا ہے تو انہیں نوازنے کیلۓ ایک غیرمتعلقہ کرکٹ بورڈ کا چئیرمین بنا دیا گیا ہے]۔

 ان کوششوں میں صوبائی حکومتیں بھرپور ساتھھ دے رہی ہیں، مثلاً پنجاب میں تمام سرکاری سکول مفت کردیۓ گۓ ہیں اور درسی کتابوں کی بھی کوئی قیمت نہیں لی جاتی۔ کمپیوٹر کی مدد سے ہر سکول کی فہرست بنادی گئ ہے اور اس میں خامیوں کی بھی نشاندی کردی گئ ہے۔ جنوبی پنجاب کے 18 اضلاع میں جہاں جماعت پنجم اور ہشتم کے درمیان لڑکیوں کے سکول چھوڑنے کی شرح سب سے زیادہ ہے، ہر لڑکی کو جس کی کلاس میں حاضریوں کی شرح 80 فیصد یا اس سے زیادہ ہے، دو سو روپے ماہانہ دیۓ جاتے ہیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ سکول چھوڑنے کی شرح ڈرامائی انداز میں کم ہوگئی ہے۔

تعلیمی سیڑھی کا سب سے اونچا درجہ، جسے ہم نے باقی نظام سے جدا کردیا، وہ اعلیٰ تعلیم ہے۔ ہم نے تباہ حال یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کو توڑ کر اس کی جگہ ایک نیا ہائیر ایجوکیشن کمیشن بنایا، جس کی سربراہی انتہائی قابل اور فعال سائنس دان اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر عطاء ارحمٰن کررہے ہیں۔ ایک نیا یونیورسٹی آرڈيننس تیار کرنے کے علاوہ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں میں انقلابی تبدیلایاں متعارف کرائیں اور ان کا معیار بلند کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے لۓ مختص کی گئ دس ملین ڈالر کی حقیر رقم سے بڑھا کر 350 ملین ڈالر سالانہ کردی گئ یعنی تین ہزار پانچ سو فیصد کا بے مثال اضافہ۔ 2010 تک انجینٓرنگ اور سائنس میں ہرسال ایک ہزار پانچ سو پی ایچ ڈی تیار کرنے کا ایک پر عزم منصوبے کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ماضی میں صرف ایک درجن پی ایچ ڈی کامیاب ہوتے تھے۔ 2008 میں چھھ نئ بین الاقوامی معیار کی انجینٔرنگ یونیورسٹیاں کھل جائیں گی۔ ایچ ای سی نے انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم کے حصول کا ایک منصوبہ بھی شروع کیا، جس سے پورے پاکستان میں 59 یونیورسٹیاں منسلک ہیں اور 16000 قیمتی سائسنی مجلوں تک پورے ملک کا طلبا رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ان اقدامات کا اعلیٰ تعلیم پر مثبت اثر ہورہا ہے۔

[یونیورسٹیوں کے قیام کی حکومتی کوششیں قابلِ ستائش ہیں مگر حکومت یونیورسٹیوں کی تعلیم کو مہنگا رکھھ کر عام لوگوں کیلۓ ناممکمن بنارہی ہے۔ پاکستان میں پرویز صاحب کے ہی دور میں تعلیم مافیہ وجود میں آچکا ہے جو دونوں ہاتھوں سے لوگوں کو لوٹ رہا ہے اور اس پر حکومت کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے]۔

ماضی میں ہم نے فنی تعلیم کر بری طرح نظر انداز کیا ہے۔ اس وجہ سے چند شعبوں میں ٹیکنیشنز اور عام طور پر تجربہ کار افرادی قوت کی کمی ہے۔ ہم نے پورے ملک میں ٹيکنیکل سکول اور تربیتی مراکز کھولنے اورا نہیں باقاعدہ ترقی دینے کے لۓ ایک نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن کمیشن تشکیل دیا ہے۔ اس طرح اب فنی تعلیم، وزارتِ تعلیم سے علیحدہ کردی گئ ہے، جہاں اسے زیادہ ترقی نہیں ہورہی تھی۔ اس کا اصل مقصد، ہماری یونیورسٹیوں میں، جہاں سے انجینرٰنگ گریجویٹ نکلتے ہیں، ہمارے ٹیکنیکل سوکولوں میں، جہاں تربیت یافتہ ٹیکنیشنز نکلتے ہیں اور ہماری موجودہ اور آئندہ صنعتی ضروریات کے آپس میں رابطے پیدا کرنا ہے۔ اس سے نہ صرف ہماری فنی مہارت بڑھے گی، بلکہ ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔

[پتہ نہیں پرویز صاحب نے سارے پرانے تعلیمی محکمے توڑ کر نۓ محکمے یعنی کمیشن بنانے کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ کیا وہ پرانے محکموں کی ہی کارکردگی کو بہتر نہیں بنا سکتے تھے۔ اب لوٹ مار کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور کس کس نے اس گنگا میں ہاتھ رنگے یہ آنے والا وقت ہی بتاۓ گا]۔

آخری پیچیدہ مسٰلہ، جسے ہم حل کررہے ہیں، مدرسوں کی تعلیم ہے۔ پاکستان میں تقریباً 14000 مدرسے ہیں، جن میں دس لاکھھ کے لگ بھگ غریب طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان مدرسوں میں سے 80 فیصد پانچ مختلف وفاق المدارس [مدرسوں کے ٹرسٹ] کے تحت ہیں۔ مدرسوں میں مضبوط حیثیت کا راز یہ  ہے کہ وہ عام طور پر اپنے طلبا کو مفت رہائش اور کھانا پینا دیتے ہیں۔ ایک طرح وہ سماجی فلاح و بہبود کے ذرائع مہیا کرتے ہیں۔ ان کی خامی اور کمزوری یہ ہے کہ یہ عموماً صرف دینی تعلیم دیتے ہیں اور ان کے طلبا میں چند انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ ان میں اکثر کی خصوصیت دوسرے فرقے کو برداشت نہ کرنا اور مزہبی معاملات پر عدم رواداری ہے۔ ہمیں وفاق المدارس سے گفتگو کرکے اس صورتِ حال میں تبدیلی لانی ہے۔ ہم مدارس کو اپنے عمومی تعلیمی نظام میں لانے کی کوشش کررہےہیں۔

[یہ بات خوش آئند ہے کہ پرویز صاحب مزہبی فرقہ بندی کی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں]۔

اب یہ ضروری ہے کہ مدارس، حکومت کے ساتھھ رجسٹرڈ ہوں اور بجاۓ صرف دینی نصابِ تعلیم کے، اپنے طلبا کو دوسرے مضامین کی تعلیم بھی دیں، جو تعلیمی بورڈ کے مطابق ہو اور متعلقہ امتحانات منعقد کرائیں۔ حکموت نے طے کیا ہے کہ صرف ان مدروسوں کو مالی امداد دی جاۓ گی، جو ان احکامات کی تعمیل کریں گے۔ بالعموم، پانچوں وفاق المدارس اسے تسلیم کرچکے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے یہ بات منظور کرلی ہے کہ ہمارے دیۓ ہوۓ نصابِ تعلیم کے مطابق پڑھائیں گے، لیکن وہ ہمارے تعلیمی بورڈ کے نظام میں شامل ہونے کے مخالف ہیں۔ باہمی اعتماد کی کمی کے باوجود ہم ایک سمجھوتے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جلد ہی ہمارا معاہدہ ہوجاۓ گا اور مدرسوں کے ساتھ ہمارے تعلقات آنے والے وقتوں میں بالکل ٹھیک ہوجائیں گے۔

[دراصل مدرسوں کو یہ خدشات لاحق ہیں کہ حکومت ان پر کنٹرول حاصل کرلے گی جس سے وہ اپنی مرضی سے طالبعلموں کو دینی تعلیم دے گی اور اس تعلیم کی وجہ سے طالبعلم ان کے آقاؤں کیلۓ کوئی خطرہ ثابت نہیں ہوں گے]۔

باقی 20 فیصد مدرسے، جو وفاق المدارس سے مسلک نہیں ہیں، ان کی صرف ایک تھوڑي  تعداد انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں ہے، جو روز بروز کم ہورہی ہے۔ اس بات کو دوبارہ کہنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے 150 ملین مسلمانوں میں انتہا پسندوں کی تعداد بہت معمولی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ یہاں پر بھی دنیا میں دوسری جگہوں کی طرح، انتہا پسند اتنا زیادہ شورغل اور غیر معمولی حرکات کرتے ہیں کہ انہیں ان کے تناسب سے کہیں زیادہ شہرت ملتی ہے، جبکہ امن پسند اور معدتدل اکثریت اتنی خاموش اور بے زبان ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اقلیت میں ہوں۔ پاکستانیوں کی بہت بڑی اکثریت اعدتادل پسند اور روشن خیال ہے۔ یہ بھی دوبارہ کہنا ضروری ہے کہ ہندوستان میں اسلام تلوار کے زور سے نہیں پھیلا، بلکہ صوفیاۓ کرام نے پھیلایا۔ اسی وجہ سے پاکستانیوں کی اکثریت امن پسن اور دوسروں کو برداشت کرنے والی ہے۔ بالآخر ایک روز بورڈ کے امتحانوں اور معیاری نصابِ تعلیم کے نتیجے میں مدرسوں کے طلبا، کالج اور یونیورسٹیوں میں اپنی قابلیت کی بنا پر داخلوں کے لۓ درخواست دے سکیں گے۔ دنیا میں بہت سے ملک ہیں، جہاں دینی اور دنیاوی سکول کامیابی سے ایک دوسرے کے برابر چلتے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں بھی ایسا نہ ہوسکے۔

[پرویزصاحب نے دنیا کو یہ دکھانے اور مسلمانوں کو تلوار کے شوق سے دور کرنے کیلۓ صوفی کونسل بھی قائم کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان صوفی ہوجائیں جن کا کام صرف اپنے آقاؤں کے زیرِ سایہ پرامن رہ کر روزی کمانا اور ان کے سامنے درویش بن کر زندگی گزارنا ہو]۔