قیادت کا امتحان

8 اکتوبر 2005 کی صبح آٹھ بج کر 52 منٹ پر لاکھوں پاکستانیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ریکٹر سکیل پر 7.6 درجے کا زلزلہ ہمارے دشوار گزار شمالی علاقوں میں واقع صوبہ سرحد اور آزاد کشمیر میں آیا، جس نے چند ہی لمحوں میںبہت بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی۔ اس تباہی نے تقریباً 30000 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے کو متاثر کیا اور اس میں 35 لاکھھ لوگ بے گھر ہوۓ۔ 73000 ہلاک، 5 لاکھھ گھر اور دوسری عمارتیں تباہ ہوئیں، اکثر تعلیمی ادارے، صحت کے مراکز اور سرکاری عمارتیں یا تو صفحۂ یستی سے مٹ گئیں یا بری طرح ٹوٹ پھوٹ گئیں، حتیٰ کہ ہمارے دارالحکومت اسلام آباد پر بھی اس کا اثر ہوا اور ایک بلندوبالا رہائشی عمارت مارگلہ ٹاورز بھی منہدم ہوگئ، جس میں وہاں رہائش پزیر بہت سے لوگ ہلاک ہوۓ اور سینکڑوں ملبے کے نیچے دب گۓ۔ پوری قوم سکتے میں آگئی ۔ جیسے جیسے اطلاعات آتی رہیں، اس تباہ کاری کی وسعت کا مجھے، حکومت، قوم اور تمام دنیا کو اندازہ ہونے لگا۔

[اس زلزلے نے اسی طرح حکمرانوں کی لاٹری کھول دی جس طرح بھٹو دور میں سیلاب کی امداد نے وزیروں سفیروں کے گھر بھر دیۓ تھے یا جنرل ضیا کے دور میں افغان جنگ نے جنرلوں کو کروڑ پتی بنا دیا تھا]۔

شروع میں مجھے کوئی اطلاع نہیں تھی کہ آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد میں کیا ہوا ہے۔ مجھے صرف اسلام آباد میں گرنے والی عمارت کے بارے میں خبر آئی تھی۔ میں فوراً موقع پر پہنچا، لیکن جیسے ہی مجھے شمالی علاقوں سے اطلاعات آنے لگیں، میں نے فوج کے چیف آف جنرل سٹاف کو حکم دیا کہ وہ متاثرہ علاقے پر پرواز کرکے بربادی کی وسعت کا اندازہ لگائیں۔

مارگلہ ٹاورز کے انہدام نے مجھے احساس دلایا کہ لوگوں کی جانیں بچانے کی تیاریوں اور سازوسامان کی فراہمی میں ہم کتنے غیر ترقی یافتہ ہیں۔ میں ترکی اور برطانیہ کی فوری ردِّعمل پر ان کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر سازوسامان سے لیس، تربیت یافتہ اور جان بچانے والے عملے پر مشتمل ٹیمیں روانہ کیں۔ بہت سے لوگوں کی جانیں ان چند بہادر اور نڈر افراد اور ان کے سونگھنے والے کتوں کی وجہ سے بچیں۔ یہ ٹیمیں صوبہ سرحد اور آزاد کشمیر بھی گئیں اور وہاں پر انہوں نے اتنا ہی عمدہ اور موٓثر کام کیا۔ ہم ان کے بے انہتا شکرگزار اور احسان مند رہیں گے۔

[پرویز صاحب نے ترکی اور برطانیہ کا شکریہ تو ادا کردیا مگر اپنے عوام اور مقامی تنظیموں کا سرسری سا ذکر کرکے ان کی تضحیک کا سبب بنے ہیں]۔

چیف آف جنرل سٹاف شام پانچ بجے جب واپس لوٹے تو متاثرینِ زلزلہ کا پہلا گروپ بھی ان کے ساتھ آيا تھا جسے راولپندي کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ تباہی کی وسعت کا اب اندازہ ہوگیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اگلی صبح بزاتِ خود زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کروں گا۔ نہ صرف نقصانات کا اندازہ لگانے کیلۓ بلکہ زخمیوں، بے گھروں اور غمزدہ افراد کی دلجوئی کیلۓ بھی۔ فوج نے انتہائی سرعت سے کاروائی کی۔ تودے گرنے کی وجہ سے علاقے کی سڑکیں بند ہوئی تھیں۔ فوج کے انجینئروں کو حکم دیا گیا کہ وہ فوراً حرکت میں آئیں اور ان سڑکوں کو کھولیں۔ تقریباً 50000 فوجی، پنجاب کی چھاؤنیوں سے وہاں بھجے گۓ۔ ہماری افواج اور فضائیہ کے تمام ہیلی کاپٹر فوری امداد اور متاثرین کو وہاں سے نکالنے کیلۓ حرکت میں آگۓ۔

[پرویز صاحب چونکہ فوجی چیف ہیں اور غیرجمہوری بھی اسلۓ وہ ہرطرف فوج کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرکے عوام کو یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ فوج ہی ان کی نجات دہندہ ہے اور اسی لۓ وہ چیف کا عہدہ اپنے پاس رکھے ہوۓ ہیں]۔

میں 9 اکتوبر کی صبح ساڑھے نو بجے تباہ شدہ علاقے کا جائزہ لینے کے لۓ گیا۔ ہم صوبہ سرحد میں دو اور آزادکشمیر میں تین مقامات پر گۓ۔ صوبہ سرحد کا قصبہ بالاکوٹ مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا۔ میں نے جو دیکھا، وہ انتہائی دلگداز اور تکلیف دہ تھا۔ ایک بھی عمارت سلامت نہیں بچی تھی۔ قصبے کی پوری انتظامیہ تہس نہس ہوچکی تھی۔ جو زندہ بچے تھے، وہ سکتے کے عالم میں کھڑے تھے۔ میں بمشکل ان کی پتھرائی ہوئی آنکھیں، دہشت زدہ تاثرات اورچہروں پر پھیلی ہوئی یاس اور ناامیدی دیکھنے کی تاب لا سکا۔ بدقسمتی سے، اس وقت میں انہیں ہمدردی اور محبت کے الفاظ اور مدد فراہم کرنے کے عزم کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکتا تھا۔ میں جہاں بھی گیا، وہاں زیادہ تر فوجی اور سول ڈاکٹروں کو عارضی پناہ گاہوں اور خیموں میں مریضوں کی خدمت کرتے ہوۓ دیکھا۔ مظفر آباد میں جو آزادکشمیر کا دارالحکومت ہے، یہ دیکھھ کر میں متعجب اور بہت خوش ہوا کہ ترکی کی ایک میڈیکل ٹيم وہاں کام کررہی تھی۔ وہ مجھھ سے پہلے وہاں کیسے پہنچ گۓ؟ میں نے ہمارے عوام کی بے لوث خدمت اور محبت کے اظہار پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ مظفرآباد میں تقریباً دوپہر ایک بجے مجھے ایک اچھی خبر ملی کہ فوج کے انجینئروں نے شہر آنے والی دو سڑکوں میں سے ایک کھول دی ہے۔ وہ یقینی طور پر رات کو حرکت میں آۓ ہوں گے اور کام ختم کرنے کیلۓ تاریکی میں کام کیا ہوگا، دوسرے شہروں کو جانے والی اور سڑکیں بھی دو دن کے اندر کھل گئیں، لیکن دور دراز وادیوں میں ذرائع آمدورفت کی مرمت کرنے میں ہفتوں لگے۔ ان علاقوں کا انحصار یہلی کاپٹر کے ذریعے پہنچنے والی امداد پر تھا۔

اپنے دفتر واپس آگر میں نے صوتِ حال کا جائزہ لیا اور پی آر آئی شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کاوش کے چار حصے تھے، جانیں بچانا، امداد، تعمیرِ نو اور بحالی۔ ہم نے امدادی کاروائیاں اور جان بچانے کی کوششوں کو منظم کرنے کیلۓ پہلے ایک فیڈرل ریلیف کمشنرز آرگنائزیشن قائم کی۔ بعد میں کاوش کے تیسرے اور چوتھے حصوں کی دیکھ بھال کیلۓ ایک ایرا قائم کی۔

[پرویز صاحب نے سارے انتظامات فوج کے حوالے کردیۓ اور سول انتظامیہ کو پاس تک پھٹکنے نہیں دیا اس طرح فوجی افسروں کو مال بنانے کا موقع فراہم کیا]۔

جان بچانے کی کاروائیاں تقریباً ایک مہینہ چلتی رہیں۔ بغیر تکنیکی مہارت اور سازاسامان کے ، پاکستان خود اس کام کو بخوبی انجام دینے کے لائق نہیں تھا۔ ہم برطانیہ اور ترکی کے فوری ردِّعمل کا، جو انہوں نے اپنے ماہرین کو بھیج کر دکھایا، ہمیشہ شکرگزار رہیں گے۔ انہوں نے بہت سی جانیں بجائیں۔

[ترکی اور برطانیہ کا بار بار شکریہ ادا کرتے پرویز صاحب کی زبان نہیں تھکی مگر مقامی تنظیموں کی کارگزاری کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ اسلۓ کہ تقریباً ساری تنظیمیں مزہبی تھیں اور اس طرح ان کی روشن خیالی پر حرف آجاتا]۔

چونکہ لاکھوں لوگ بےگھر تھے اور سردیاں آرہی تھیں۔ لٰہازا ہماری دوسری مصروفیت امدادی کاروائیاں تھیں۔ اس کے تین حصے تھے، قحط روکنے کیلۓ خوراک اور پانی لانا، طبی امداد مع جان بچانے کی دوائیں مہیا کرنا، میدانی ہسپتالوں کو منظم کرنا اور بےگھر لوگوں کو پناہ گاہیں مہیا کرنا۔ پاکستان، مغرب کے آسودہ حال ملکوں کی طرح نہیں ہے، جن کے پاس وسیع ذرائع، سماجی تحفظ اور سماجی بہبود کے منظم ادارے ہیں حالانکہ حکومت ناگہانی افتاد سے نمٹنے کے لۓ امدادی اشیا کی ایک مقدار اپنے گوداموں میں رکھتی ہے، لیکن نجی خیراتی اور امدادی تنظیمیں کافی حد تک حکومت کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ پوری قوم اپنے زلزلہ زدہ ہم وطنوں کی مدد کرنے کے لۓ اٹھ کھڑی ہوئی اور بےشمار لوگوں اور لاتعداد رضاکار تنظیموں نے امدادی اشیا کے عطیے دیۓ، عطیے جمع کۓ اور بھیجے۔ سینکڑوں ڈاکٹر، مقامی اور غیرممالک میں کام کرنے والے پاکستانی اور غیرملکی، مدد کیلۓ میدان میں آگۓ۔ پاکستانیوں اور ہمارے غیرملکی دوستوں کی فیاضی، اتنی ہی موٓثر تھی، جتنی تباہی بعید از قیاس تھی۔ غیرسرکاری اور اقوامِ متحدہ کی تنظیموں کے علاوہ، تمام دنیا نے اپنے دل کھول دیۓ۔ پاکستانی قوم ان کی بےمثال ہمدردی اور ہنگامی بنیادوں پر فراہم شدہ سخاوت و فیاضی کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔

ان تمام معاملات میںمیری حکومت کا کام مختلف شعبوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا تھا۔ ہم نے محسوس کیا کہ اگر زلزلہ زدہ علاقے میں بھاری مقدار میں آنے والی امدادی اشیا کو باضابطہ کنٹرول اور منظم نہ کیا گیا اور ہمارے زیرِ اثر اور مواصلاتی نظام کو صحیح حالت میں نہ رکھا گیا تو پورا نظم و نسق، انتشار اور بدنظمی کا شکار ہو کر ختم ہوجاۓ گا۔ فوج واحد ادارہ ہے، جو یہ ذمہ داری انجام دے سکتا تھا۔ اس وجہ سے ہم نے فوج کے دس بریگیڈ اور تقریباً پچاس بٹالین متاثرہ علاقے کے طول و عرض میں مختلف کاموں پر پھیلا دیۓ۔ ان مقامات کا نام ہم نے نوڈذ رکھا۔ ان کے ٹیلی فون نمبرز اور نگران افسران کے نام ذرائع ابلاغ کے ذریعے تشہیر کردیۓ گۓ تاکہ ہر وہ شخص جسے مدد کی ضرورت ہو، ان تک رسائی حاصل کرسکے۔ اسی طرح فوج نے تمام آنے اور جانے والی ٹریفک کو منظم کیا اور ضرورت کے مطابق امدادی اشیا بھیجیں اور تقسیم کیں۔ یہ نوڈز ٹیلی کمیونی کیشن کے مرکز بھی تھے۔ ہم نے دو ہوائی اڈے بھی امدادی اشیا کی آمد کےلۓ مخصوص کردیۓ اور ان اڈوں پر امدادی اشیا کو تقسیم کرنے کے لۓ ایک تنظیم قائم کی۔ پہاڑوں میں بھی آگے کی طرف چھھ اڈے اور قائم کۓ اور متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان ہوئی جہازوں سے گرا کر آۓ۔ خچروں پر اور پیدل لے جانے کے لۓ آرمی نوڈز پر مبنی ایک تنظیم تشکیل دی۔ اگر میںامریکہ اور برطانیہ کا اپنے شنوک ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مدد کا تزکرہ نہ کروں، جو انہوں نے امدادی اشیا کو تباہ شدہ علاقوں میں لے جانے میں کی، تو یہ میری کوتاہی ہوگی۔ کسی بھی طرح کی امدادی اور جان بچانے کی کاروائیوں میں وقت انتہائی اہم ہوتا ہے اور شنوک کے بغیر ہم اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔

[وہی بات کہ زلزلہ زدگان کی بحالی کا کام فوج نے سنبھال لیا اور ایک جنرل کو اس کام کا نگران مقرر کردیا۔ اس کے دو فائدے ہوۓ۔ ایک فوج کی وہاں پر نمائندگی ہوئی اور دوسرے مقامی مزہبی تنظیموں کے کام کونمایاں نہ ہونے دیا تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی عزت نہ بڑھ جاۓ۔ یہاں پر پھر شنوک ہیلی کاپٹروں کا ذکر کرنا پرویز صاحب نہیں بھولے مگر مقامی لوگوں کی میلوں کی پیدل مسافت کو بھول گۓ جنہوں نے دن رات ایک کرکے وہاں امداد پہنچائی]۔

مجھے نہ صرف حکومتوں بلکہ ترکی اور سعودی عرب کے عوام کی دی ہوئی امداد کا بھی تزکرہ کرنا چاہۓ۔ وہ ہمیں ادویا، کھانا اور خیموں جیسی امدادی اشیا مہیا کرتے رہے۔ ان کی حکومتوں نے عوام کے عطیات جمع کرنے کیلۓ خصوصی مہمات چلائیں۔ دونوں ملکوں کے عوام نے ہمارے لۓ اپنے دل کھول دیۓ۔ سکولوں کے بچے، جنہوں نے اپنے جیب خرچ اور بہت سے غریب لوگوں نے اپنے قیمتی اثاثوں کے عطیے دے کر ہمارے دل موہ لیے۔ غالباً ایک سب سے اچھا فصلہ، جو میں نے امدادی کاروائیوں کے چند ہفتوں کے اندر ہی اندر کیا، وہ اس علاقے میں روپے پیسے کا استعمال دوبارہ شروع کرنا تھا۔ میں نے دیکھا کہ لاکھوں لوگوں کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں بچا تھا۔ مریض، جو میدانی ہسپتالوں یا دور دراز واقع ہسپتالوں میں لے جاۓ گۓ تھے، ان کے پاس گھر واپس آنے تک کے لۓ رقم نہیں تھی۔ زلزلہ زدہ علاقے میں تمام چھوٹے چھوٹے دکانداروں کے کاروبار بیٹھ گۓ تھے۔ تجارتی سرگرمیوں کا شائبہ تک باقی نہیںتھا۔ نہ وہاں کوئی بیچنے والے تھے اور نہ خریدنے والے۔ ہم نے ان تمام لوگوں میں، جو بے گھر ہوگۓ تھے یا زخمی ہوگۓ تے اور جو ہلاک شدگان یا گمشدہ لوگوں کے عزیز تھے، فوری طور پر رقومات بانٹنے کا فیصلہ کیا۔ تقریباً تین مہینے میں، ساڑھے تین سوملین ڈالر کے لگ بھگ رقم تقسیم کی گئ۔ اس حکمتِ عملی نے واقعی کرامات کر دکھائیں۔ تجارتی سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ لوگوں نے خود اپنی تعمیرِ نو کی کوششیں شروع کردیں اور معاشی زندگی واپس آنے کے آثار نظر آنے لگے۔

[ابھی اس زلزلے کو ایک سال ہوچکا ہے اور متاثرہ لوگوں کے حالات جوں کے توں ہیں۔ جتنی بھی غیرملکی امداد ملی اس کا کوئی حساب کتاب پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس امداد کے ثمرات زلزلہ زدہ علاقوں میں نظر آرہے ہیں]۔

شک اور مایوسی پھیلانے والوں نے پیشینگوئی کی تھی سینکڑوں ہزاروں لوگ زخموں سے، ہزاروں بھوک سے اور مزید ہزاروں بیماری اور وباؤں سے ہلاک ہوجائیں گے۔ ایسا کچھھ نہ ہوا۔ انہوں نے یہ بھی پیشینگوئی کی تھی کہ سینکڑوں ہزاروں لوگ ہمالیہ کی سردیوں میں، جو عنقریب آنے والی تھیں، منجمد ہو کر ہلاک ہو جائیں گے۔ میں ایسے لوگوں کو بغیر معلومات کےخوف و ہراس پھیلانے والے کہتا ہوں جو کمزور سوچ، کمزور دل اور اگر ایک لفظ میں کہا جاۓ تو بےوقوف ہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ ان کی پیشینگوئیاں غیرمعمولی طور پر بڑھا چڑھا کر کی گئی تھیں۔

تعمیرِ نو میں زیادہ پیچیدہ اور لمبے عرصے تک چلنے والی کاروائیاں ہوتی ہیں۔ ہم نے تجزیہ کیا کہ دنیا میں یہ کاروائیاں کس طرح کی گئ ہیں، خصوصاً امریکہ کے طوفان کٹرینا اور جنوب مشرقی ایشیا کے سونامی کے بعد کی جانے والی کاروائیوں کی روشنی میں تقریباً چار لاکھھ مکانات، سکول اور سرکاری عمارتیں تعمیر کرنے کی ضرورت تھی۔ ہم نے سوچا کہ مکانات کی تعمیر کیلۓ لوگوں پر سرکاری حل ٹھونسنا نہ تو عقل مندی ہوگی اور نہ اس پر عمل درآمد ہوسکے گا۔ اس وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا کہ تباہ شدہ مکانات کے مالکوں کو نیا مکان تعمیر کرنے کیلۓ ایک محدود رقم مع زلزلے سے محفوظ مکان کا نقشہ دے دی جاۓ۔ سکول اور ہسپتالوں کیلۓ ہم نے ہر علاقے کی اپنی تعلیمی اور صحت کی ضروریات کی بنیاد پر پرائمری، مڈل، ہائی سکول، کالج اور مختلف نوع کی ڈسپنسریاں اور ہسپتال فراہم کرنے کی حکمتِ عملی تیار کی۔ جہاں تک مظفرآباد کی سرکاری عمارتوں کا تعلق ہے، ہم نے انہیں شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے نقطۂ نظر سے متبادل جگہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔

بحالی میں بیواؤں، یتیم بچوں اور معذوروں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہم نے ابتدا میں آشیانہ کے نام سے اسلام آباد کے اطراف میں بحالی کے مراکز قائم کۓ، جنہیں بعد میں آزادکشمیر اور سرحد کے متعلقہ علاقوں میں متتقل کرنا تھا۔ میری ایک فکر، تعمیرِ نو اور بحالی کے منصوبوں کی تکمیل کے لۓ مالی اور دوسرے ذرائع تھے، جو ہمیں طویل مدت کے لۓ درکار ہوں گے۔ حکومت پاکستان نے عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اقوامِ متحدہ کی تنظیموں کے ساتھھ مل کر زلزلے سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلۓ ایک نشست کا انعقاد کیا۔ ہم چاہتے تھے کہ شروع سے ہی ہماری ضروریات پر سب کا اتفاق ہو۔ تخمینہ 5.2 ارب ڈالر تھا۔ 1.6 ارب ڈالر ایک سال کی امدادی کاروائیوں کے لۓ، 3.6 ارب ڈالر تعمیرِ نو کے لۓ اور 100 ملین ڈالر بحالی کیلۓ۔ ان سب اندازوں کے بعد میں نے اسلام آباد میں بین الاقوامی امداد دینے والوں کی ایک کانفرنس منعقد کی۔ میں نے ایک صدارتی امدادی فنڈ بھی قائم کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت فخر محسوس ہوا کہ بین الاقوامی برادری نےانتہائی وسیع پیمانے پر اس کانفرنس میں شرکت کی۔ 76 ملکوں کے نمائندے موجود تھے اوران سب نے مجموعی طور 6.4 ارب ڈالر کی امداد کے کچھھ عطیات کی صورت میں اور کچھ آسان قرضوں کی شکل میں، وعدے کۓ جو ہماے ہدف سے 1.2 ارب ڈالر زیادہ تھے۔ پوری پاکستانی قوم اور میں بزاتِ خود ہماری ضرورت کے وقت ایسی وسیع القلبی کے مظاہرے پر دنیا کے شکر گزار ہیں۔ صدارتی ریلیف فنڈ میں بھی مقامی اور غیرملکوں میں مقیم پاکستانیوں اور تنظیموں نے انتہائی فراخ دلی سے بھاری عطیات دیۓ۔ شروع 2006 تک یہ فنڈ 170 ملین ڈالر سے تجاوز کرچکا تھا۔

[پرویز صاحب کا یہ قوم پر احسان ہوتا اگر وہ زلزلے کی پہلی سالگرہ پر قوم سے خطاب کرتے اور چھھ بلین ڈالر کی امداد کا حساب کتاب پیش کرتے۔ بقول پرویز صاحب کے بحالی کے کاموں کیلۓ جتنی رقم درکار تھی اس سے ایک ارب ڈالر زیادہ اکٹھے ہوۓ مگر ابھی تک بحالی کا کام مکمل نہیں ہوسکا]۔

زلزلہ ایک حکمِ خداوندی تھا۔ جس سے لوگوں کو بے انتہا تکلیف اور نقصانات پہنچے لیکن بحالی کی کوششیں، سرکاری اور نجی، مقامی اور بین الاقوامی، اضطراری اور منظم بھی حکمِ خداوندی سے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے ہزاروں احکامات میں شامل ہیں۔ اتنی زیادہ امداد اور نیک تمناؤں کے ساتھ اس علاقے کے لوگ انشاءاللہ بحال ہوجائیں گے اور ہم ہمیشہ احسان مند رہیں گے۔

[اسی لۓ کہتے ہیں کہ غریبوں کی تکلیف امیروں کیلۓ نیک فال ثابت ہوتی ہے۔ زلزلے میں غریبوں کی بےحالی نے امیروں کے گھر بھر دیۓ۔ ہماری عزتِ نفس تو اب وہاں تک گر چکی ہے جہاں ہم حکومی زکوة فنڈ میں بھی خردبرد کرنے سے خوف نہیں کھاتے تو زلزلے کی امداد ہڑپ کرنے میں ہم قدرت سے کیوں ڈریں گے]۔