ورلڈ بنک نے پاکستان کی معشیت کا تجزیہ کرتے ہوۓ حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کی قدر میں کمی کرے تاکہ حکومت اپنے تجارتی خسارے پر کنٹرول کرسکے۔ حکومت کا تجارتی خسارہ پچھلے سات سالوں میں بڑھ کر 12000 ملین ڈالر کی خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ یہ خسارہ پچھلے سال 6200 ملین ڈالر تھا اور سٹیٹ بینک کے سابقہ گورنر ڈاکٹر عشرت نے مئ 2005 میں کہا تھا کہ وہ اس خسارے کو کم کرکے 300 ملین ڈالر تک لے آئیں گے جو سراسر جھوٹ تھا۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ ہماری درآمدات ميں مشینری کے مقبلے میں اشیاۓ صرف کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ بنکوں نے لوگوں کو اشیاۓ صرف کی خریداری پر قرضوں کی جو بوچھاڑ کی اس سے حکومت نے اپنی معاشیت کی ترقی کا اندازہ لگایا جو بلکل غلط تھا۔

ہماری حکومت نے منافع کی شرح میں کمی کرکے بنکوں کے منافع میں اضافہ کیا جس کی وجہ سے بین الاقوامی کمپنیوں نے بنکنگ سیکٹر میں بے انتہا انسویسٹمنٹ کی اور دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹی۔

پچھلے سال حکومت نے نجکاری کے دوران بین الاقوامی کمپنیوں کے ہاتھوں اپنے قومی اثاثے ریکارڈ حد تک بیچ کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی یاد تازہ کردی ہے۔

یہ سب کچھ ہمارے قابل درآمد شدہ یعنی امپورٹڈ وزیرِ خزانہ جو اب وزیرِ اعظم بھی ہیں کی موجودگی میں ہورہا ہے۔ حکومت کی انہی غلط معاشی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے کہ ورلڈ بنک ہمارے روپے کی قدر میں کمی پر زور دینے لگا ہے۔  سٹیٹ بنک نے اس دفعہ بھی مسقتبل قریب میں روپے کی قدر میں کمی کے  کسی بھی امکان کو رد کیا ہے۔ مگر ہماری نظر میں یہ صرف ساوہ لوح لوگوں کو معمول کی طرح صرف جھانسا دیا جارہا ہے تاکہ وہ گھبرا کر روپوں کو ڈالروں میں تبدیل کرنا شروع نہ کردیں یا بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ڈالروں کی ترسیل نہ روک لیں۔

ہم اپنے قارئین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ سٹیٹ بنک کے وعدے پر اعتبار نہ کریں اور روپے کی قدر میں کمی کیلۓ تیار رہیں۔ اگر آپ اپنی فارن کرنسی کو روپے میں تبدیل کرانے کا سوچ رہے ہیں تو اسے کچھ عرصے کیلۓ روک لیں۔ بلکہ ہم تو آپ کو یہ مشورہ دیں گے کہ اپنے روپوں کو ڈالروں میں فوراً تبدیل کرالیں اور جونہی روپے کی قیمت کم ہو تو پھر دوبارہ ڈالر بیچ دیں۔ ورلڈ بنک کی راۓ کے مطابق پاکتسانی روپے کی قدر ميں 20 فیصد تک کمی کرنی چاہۓ۔ اسطرح اگر امریکی ڈالر آج 60 روپے کا ہے تو روپے میں کمی کے بعد 72 روپے کا ہوجاۓ گا۔

بقول ماہرِ معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے حکومت کی پچھلے سات سالوں کی مستی اب رنگ لانے والی ہے اور ہماری  قومی پیداوار کی مصنوعی بڑھوتری کا دھرن تختہ ہونے والا ہے۔