لوڈشیڈنگ سے نپٹنے کیلیے حکومت نے جو فیصلے کیے ہیں وہ معشیت کیلیے زہر قاتل ثابت ہو سکتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں دو دن کی چھٹی سے جتنی بجلی کی بچت ہو گی اس سے زیادہ کام کا نقصان ہو گا۔ اس بات کی بھی سمجھ نہیں آتی کہ دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود حکومت مزید توانائی کا بندوبست کیوں نہیں کر سکی۔

معیشیت کیلیے توانائی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ اگر کارخانوں کو بجلی اور گیس نہیں ملے گی تو وہ پیداوار کیسے بڑھائیں گے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صدارتی ایوانوں اور اسمبلی حالوں کی بجلی کا استعمال پچاس فیصد کم کرنے کی بجائے ان کی بجلی تب تک منقطع کر دی جاتی جب تک بجلی کا بحران حل نہ ہو جاتا۔ تب تک حکمران ہاتھ کے پنکھوں اور لالٹینوں سے کام چلاتے۔

کل جو توانائی کانفرنس ہوئی اس میں شرکا بجلی کی لوڈشیڈنگ پر غور کرنے کی بجائے بات بات پر ایسے قہقہے لگاتے رہے جیسے انہیں عوام کی پرواہ  ہی نہ ہو۔ اس وقت محفل کشت زعفران بن گئی جب بجلی کے وزیر راجہ اشرف کئی بار کی کوشش کے باجود چیف آفیسر کی بجائے چیف جسٹس کہتے سنے گئے۔ لگتا ہے چیف جسٹس کا جن اب بھی حکمرانوں کے ذہنوں پر سوار ہے۔ جس ملک میں توانائی کے بحران کی وجہ سے پیداوار نہ ہونے کے برابر رہ جائے وہاں کے حکمرانوں کو میڈیا پر سرعام ہنسنا زیب نہیں دیتا۔ لیکن کیا جائے جب عوامی دباؤ کی فکر نہ ہو تو پھر بڑے سے بڑے بحران میں بھی مزاح کا پہلو نکال لیا جاتا ہے۔