جب تک دبئی کا ویزہ نہیں کھلا تھا خاص الخاص آدمیوں کے گھر ریکارڈ پلیئر، خاص آدمیوں کے گھر ریڈیو ہوا کرتا تھا اور عام آدمی راہ چلتے چائے خانوں اور حلوائیوں کی دکانوں پر بجتے ریڈیو سنا کرتے تھے۔ ہم نے جب ستر کی دہائی میں ہوش سنبھالا اور ہائی سکول جاتے ہوئے بازار سے گزرتے تو نورجہاں، مہدی حسن، نسیم بیگم، رونا لیلی، مسعود رانا، احمد رشدی کے گانے سننے کو ملتے۔ کوئی نئی فلم ریلیز ہوتی تو اس کے گانے ریڈیو پر بجنے لگتے۔

پھر لوگ دبئی سے ریڈیو کیساتھ ٹیپ ریکارڈر بھی لانے لگے۔ جلد ہی ٹیپ ریکارڈر کی بڑے فیتے کی ٹیپ چھوٹی چھوٹی کیسٹ میں بدل گئی۔ اس وقت ایک کیسٹ میں دس سے پندرہ گانے ریکارڈ ہوتے تھے۔ پھر کیا تھا ہر کوئی ٹیپ ریکارڈر لیے گھومنے لگا اور آڈیو کیسٹوں کی دکانیں کھلنے لگیں۔ ان کیسٹوں نے کوئی تیس سال تک لوگوں کو موسیقی سنائی۔ ہم نے بھی آڈیو کیسٹوں پر ماں باپ کا پیسہ خوب ضائع کیا۔ منی بیگم، عطااللھ عیسی خیلوی، صابری قوال، عزیز میاں قوال، نصرت فتح علی خان کی آوازوں نے آڈیو کیسٹوں کے کاروبار کو جلا بخشی. ہم نے ان گلوکاروں کیساتھ انڈین گلوکاروں کی کیسٹیں بھی جمع کرنی شروع کر دیں۔ موسیقی سے جنون کی حد تک لگاؤ یونیورسٹی کے زمانے تک رہا۔ تب تک ہم کوئی تین سو کیسٹ اکٹھی کر چکے تھے۔

ان کیسٹوں کے اتنے بڑے مجموعے کی ایک وجہ ہمارے ایک عزیز بھی تھے جو دبئی میں کام کرتے تھے۔ جب بھی وہ دبئی سے آتے تو بہت ساری کیسٹ ساتھ لاتے۔ ان کے جانے کے بعد ہم ان کے گھر سے کیسٹ لاتے اور کاپی کر لیتے۔ پاکستان چھوڑتے ہوئے ہم اپنی کیسٹوں کا مجموعہ پاکستان ہی چھوڑ آئے جو بعد میں ہمارے رشتے داروں نے آپس میں بانٹ لیں۔

غزلوں اور قوالیوں کے بعد ڈسکو کا دور آیا اور ناذیہ حسن اور ذوہیب نے خوب دھوم مچائی۔ وی سی آر اس وقت عام نہیں تھا اور لوگ اس پر صرف فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ اس وقت ویڈیو کیسٹ بھی بن چکی تھیں مگر آڈیو کیسٹ کی جگہ نہ لے پائیں کیونکہ وی سی آر ساتھ لیکر گھومنا اور دن کے وقت ٹی وی گانے دیکھنا بہت مشکل ہوتا تھا۔

فنکاروں نے ٹی وی پر اپنے فن کا مظاہرہ کر کے اپنی آڈیو کیسٹ سے خوب پیسہ کمایا۔ یہ ٹی وی کا کمال تھا کہ محمد علی شہکی، عالم گیر، بنجمن سسٹرز، سجاد علی، نیرہ نور، تصورخانم کی کیسٹوں نے خوب کاروبار کیا۔ آہستہ آہستہ ٹی وی پاکستانی سینما سے آگے نکلنے لگا اور پھر ایک دن نورجہاں، ناہید اختر، مہدی حسن، مسعود رانا جو فلمی گلوکار تھے ٹی وی پر جلوہ گر ہونے لگے۔

آڈیو کیسٹ کو زوال تب آیا جب سی ڈیز مشہور ہوئیں اور پورٹیبل سی ڈی پلیئر ملنے لگے۔ آڈیو کیسٹ کے مقابلے میں سی ڈیز نے بہت زیادہ ترقی کی۔ پہلے سی ڈی پر پندرہ سولہ گانے ریکاررڈ ہوتے تھے پھر ایم پی تھری کی وجہ سے پچہتر سے بھی زیادہ گانے ریکارڈ ہونے لگے۔

ابھی سی ڈیز کا دور کوئی زیادہ پرانا نہیں ہوا تھا کہ ایم پی تھری پلیئر آ گئے جن میں ہزاروں کی تعداد میں گانے ریکارڈ ہو جاتے ہیں۔ اب عالم یہ ہے کہ آپ کو گانوں کا ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو گانا سننا ہے انٹرنیٹ پر ڈھونڈ لیجیے۔ آپ کو آڈیو کی شکل میں بھی ملے گا اور ویڈیو کی شکل میں بھی۔ یوٹیوب نے تو گانوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ اب آپ اپنی پسند کی سی ڈی انڑنیٹ کی مدد سے دو منٹ میں بنا سکتے ہیں۔ سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کی دکانیں اب بھی ہیں مگر زیادہ تر لوگ وہاں سے نئی فلمیں خریدتے ہیں آڈیو گانے نہیں۔