قائد اعظم پاکستان کے باني جنہوں نے کروڑوں ہندوؤں کي مخالفت کا سامنا کرکے پاکستان بنوايا  اور انہوني کو ہوني کردکھايا۔ ہم اکثر سوچتے ہيں کہ اگر قائد اعظم آج زندہ ہوتے اور ريٹائرڈ زندگي گزار رہے ہوتے تو ان کے موجودہ مسلم ليگوں کے بارے ميں کيا خيالات ہوتے۔ کيا وہ مسلم ليگ کو فوج کے ہاتھوں بار بار يرغمال ہونے کو پسند کرتے؟ کيا وہ ڈاکٹر شير افگن اور شيخ رشيد کي قلابازيوں کا نوٹس نہ ليتے؟ کيا وہ صدر مشرف کے موجودہ سيٹ اپ کو جمہوري قرار ديتے؟ کيا وہ چوہدري شجاعت، نواز شريف اور پير پگاڑا کي مسلم ليگوں میں سے کسي کو بھي اپني مسلم ليگ کہتے؟ وہ حدود قوانين کي موجودہ سياست کي لپيٹ ميں آنے والي اپوزيشن کو کيا مشورہ ديتے؟ کيا وہ جنرل صدر مشرف کے انہی اسمبليوں سے دوبارہ انتخاب کے پلان کو جائز قرار ديتے؟ کيا وہ قومي اثاثوں کو غيرملکيوں کے ہاتھوں فروخت کرنے پر خوش ہوتے؟ کيا وہ ٹيلي کام انڈسٹري اور بينکنگ سيکٹر پر غيرملکيوں کي اجارہ دار کو تسليم کرليتے؟

سب سے بڑھ کر مسلم ليگ کي صد سالہ تقريبات ميں قائد اعظم يونيورسٹي کے پروفيسر کي اس بات کي تائيد کرتے کہ پاکستان اسلام کيلۓ نہيں بلکہ سيکولرازم کيلۓ بنايا گيا؟ کيا وہ ان بنگاليوں کو شاباش نہ ديتے جنہوں نے اس بيان کے خلاف احتجاج کيا؟ کيا وہ سينٹ کے موجودہ ڈپٹي ليڈر کي اس بات کو تسليم کرليتے کہ اب دو قومي نظريہ ختم ہوچکا ہے۔ کيا وہ بنگالي زائرين کے دو قومي نظريہ کے ختم نہ ہونے کے دلائل کو تسليم کرليتے؟