ہم نے جب سے ان دي لائن آف فائر کو اردو ميں اپنے بلاگ پر تبصروں کيساتھ چھاپنا شروع کيا توايک سروے بھي اپنے بلاگ پر ڈال ديا تھا۔ اس کا نتيجہ کچھ اسطرح رہا کہ ستاون فيصد کا خيال تھا يہ کتاب پرويز صاحب نے اپنے مفاد کيلۓ لکھي ہے۔ بائيس فيصد کہتے ہيں کہ يہ کتاب انہوں نے امريکہ کے کاز کيلۓ لکھي اور صرف تيرہ فيصد نے کہا کہ يہ پاکستان کيلۓ لکھي گئ ہے۔

اس سروے سے يہ اندازہ لگانا مشکل نہيں ہے کہ اب لوگ اتنے باشعور ہوچکے ہيں کہ انہيں ہر حکمران کے اعمال کے پيچھے چھپے ہوۓ ارادوں کا پتہ ہوتا ہے۔ يہ الگ بات ہےکہ لوگ برائي کو برائي تو سمجھتے ہيں مگر ان ميں ابھي اتني ہمت پيدا نہيں ہوئي کہ وہ اس کا سرِعام اظہار کر سکيں يا پھر اس برائي کو روکنے کي کوشش کرسکيں۔

ہماري نظر ميں يہ تبديلي بھي بہت اہم ہے اور اگر اسي طرح لوگوں کے شعور کي پرواز جاري رہي تو ايک دن ان ميں مزاہمت کي ہمت بھي پيدا ہوجاۓ گي۔