لوڈشیڈنگ میں کمی بیشی کیسے ہوتی ہے اب تک اس کا مکمل اندازہ ہم نہیں لگا سکے مگر جو بات ہمیں سمجھ میں آئی ہے وہ ہے آئی پیز کو ان کے واجبات ادا نہ کرنا اور انہیں چلانے کیلیے مناسب ایندھن نہ دینا۔ اس کے علاوہ بارش ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ ڈیموں میں پانی آ چکا ہے اس لیے لوڈشیڈنگ ختم کر دی گئی ہے مگر دو دن بعد ہی لوڈشیڈنگ دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔ شاید ہمارے ڈیموں میں پانی صرف دو دن کی بجلی کیلیے ہی ہوتا ہے۔

اس دفعہ تو آئی ایم ایف نے قرض کی بہت ساری شرائط کے ساتھ ایک شرط یہ بھی لگائی ہے کہ حکومت آئی پیز کو ان کے واجبات کی مد میں اربوں روپے واپس کرے۔

آج جنگ کی خبر میں بھی کچھ اسی طرح لکھا گیا ہے کہ گیس کی غیرموجودگی اور فرنس آئل کی بچت کیلیے بہت سارے آئی پیز کو بند کر دیا گیا ہے۔ اب کوئی حکومت سے پوچھے کہ فرنس آئل کی بچت اہم ہے یا ملکی معیشت جو بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بحران کا شکار ہے۔

کاروبار کا سیدھا سا اصول رہا ہے کہ جس چیز کی طلب ہے اسے بیچو۔ بجلی ہر کوئی استعمال کرنے کو تیار ہے مگر فرنس آئل کی بچت کیلیے اس کی پیداوار کم کرنا انتہائی بیوقوفانہ تجارت ہے۔ خدا کے بندو بجلی کے بلوں سے تم فرنس آئل کی قیمت چکا سکتے ہو۔ کرائے کے بجلی گھروں کی بندش کی صرف یہی وجہ نظر آتی ہے کہ بجلی گھروں کو شک ہے کہ انہیں معاوضہ وقت پر نہیں ملے گا۔ جب پہلے واجبات ادا نہیں کئے گئے تو پھر مزید ادھار بجلی بیچنے سے بہتر ہے کہ بجلی پیدا ہی نہ کرو۔