کل لاہور میں ایک واردات میں ڈاکوؤں نے ڈی آئی جی تصدق حسین کو گن پوائنٹ پر ان سے پرس اور موبائل چھیننے کے دوران ذخمی کردیا۔ اس اخباری خبر ميں اس واردات کے ساتھ دوسری بہت ساری وارداتوں کی بھی تفصیل بیان کی گئ ہے۔ لاہور کا شائد ہی کوئی کونا بچا ہو جہاں اس ویک اینڈ کے دن واردات نہ ہوئی ہو۔

ڈی آئی جی لگتا ہے کچھ زیادہ ہی بہادری دکھانے کے چکر میں مار کھا گۓ حالانکہ سیدھا سا اصول ہے کہ اگر تم نہتے ہو اور تمہارا دشمن اسلحے سے لیس ہے تو پھر مزاحمت مت کرو اور سب کچھ ڈاکوؤں کے حوالے کرکے جان بچاؤ۔ اگر چان بچ گئ تو پھر ڈاکوؤں کر بھی پکڑلو گے اور اگر جان ہی نہ رہی تو پھر کچھ نہیں کرپاؤ گے۔ یہی سبق دنیا کے سارے خطرناک شہروں میں پولیس والے لوگوں کو پڑھاتے ہیں۔

یہ مت سمجھۓ گا کہ ہمیں ڈی آئی جی پر حملے کی خوشي ہوئی ہے مگر تھوڑا سا اطمینان ضرور ہوا ہے یہ سوچ کر کہ شائد اب پولیس کو یقین آجاۓ کہ شہر میں ڈکیتیاں بڑھ گئ ہیں اور وہ ان کا سدِ باب کرنے کی پہلے سے زیادہ کوشش کرے گی۔ ہمارے ہاں اکثر تبھی قانون پر عمل ہوتا ہے جب کوئی بڑا کسی ظلم کا شکار ہوتا ہے۔ ڈی آئی جی کی وارادت میں بھی پولیس کا یہی رویہ نظر آیا۔ پہلے تو پولیس والوں نے اس واردات کوبوگس قرار دے دیا مگر جب بعد میں پتہ چلا کہ ان کا افسر اس واردات میں ذخمی ہوگیا ہے تو پھر پولیس کی دوڑ لگ گئ۔ سارے بڑے افسر جو ایک شادی کی تقریب میں شریک تھے کھانا ادھورا چھوڑ کو ہسپتال کی طرف دوڑ پڑے جہاں ڈی آئی جی کو داخل کرایا گیا تھا۔

ڈی آئی جی کا زخمی ہونا ایک طرح اچھا بھی ہوا اور برا بھی۔ اچھا اس لۓ کہ ان کی جان بچ گئ اور برا اسلۓ کہ موت کی صورت میں شائد پولیس زیادہ مستعدی دکھاتی اور آئندہ ہونے والی وارداتوں کی سختی سے سرکوبی کوسکتی۔

معاشرے کو سدھارنے کا ایک یہ بھی طریقہ ہے کہ ہمارے بڑے بھی ان معاشرتی برائیوں کا شکار ہوں جنہوں نے غریبوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ ہمیں معلوم ہے جو کام غریب رشوت دے کر کرواتا ہے وہ کام امیر افسر سفارش سے کرالیتا ہے۔ افسر اپنی افسری کے زور پر غریبوں کا حق آسانی سے چھین لیتا ہے اور اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ مگر صرف ڈاکوؤں کا محکمہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں چھوٹے بڑے سب برابر ہوتے ہیں۔ ڈاکو واردات کرتے ہوۓ افسروں کا لحاظ تب کرے گا جب اسے پتہ چلے گا کہ وہ افسر ہے۔ اب سول وردی میں ڈي آئی جی ڈاکوؤں کو ابھی اپنی شناخت کرانے کا سوچ ہی رہا ہوگا کہ ڈاکو اسے لوٹ کر فرار ہوجائیں گے۔

ڈی آئی گی کے گن مین نے بھی اپنے دوسرے پولیس والوں کی پیروی کرتے ہوۓ موقع واردات پر پہنچنے میں دیر کرکے اچھا بھی کیا اور برا بھی۔ اچھا اسلۓ کیا کہ اس کی جان بچ گئ اور شائد اس کو معلوم تھا کہ اس کی جانثاری کے بدلے میں اس کی موت کے بعد اس کے بچوں کی کوئی خبر نہیں لے گا اور برا اسلۓ کیا کہ اس نے لاپرواہی دکھا کر اپنے پیشے سے دوسرے ہم منسبوں کی طرح غداری کی۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ غریبوں کو لوٹنے والے تو کبھی پکڑے نہیں جاتے بلکہ ان کی شکایات ہی بوگس سمجھ کر رد کردی جاتی ہیں۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ پولیس ڈی آئی جی تصدق حسین کو لوٹنے والوں کو گرفتار کرنے کیلۓ کتنی مستعدی دکھاتی ہے۔ ہوسکتا ہے ڈی آئی جی نے ڈاکوؤں کو پہچان لیا ہو اور اسطرح پولیس کیلۓ وہ راستہ بھی بند کردیا جس پر چل کر پولیس اکثر بے گناہوں کو اقرارِ جرم کرا کر  کیس بند کردیتی ہے اور اپنے سینے پر تمغے سجا لیتی ہے۔