چند روز قبل جنرل صدر پرویز مشرف نے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوۓ عوام کو تنبیہ کی کہ اگر انہوں نے روشن خیالوں اوراعتدال  پسندوں کو کامیاب نہ کرایا تو آگے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ اگر پرویز صاحب اس اندھیرے کی وضاحت فرما دیتے تو آج ہمیں یہ تحریر نہ لکبھنی پڑتی۔

اندھیرے کئ قسم کے ہوتے ہیں۔

قبر کا اندھیرا

اس اندھیرے کا مزہ ہم سب نے چکھنا ہے چاہے کوئی حکمران ہو یا فقیر اور وہاں پر روشنی صرف اپنے اعمال کی کام آۓ گی۔ سب سے سیاہ اندھیرا اس حکمران کا مقدر بنے گا جس کے کھاتے میں اپنی مظلوم رعایا کی آہیں ہوں گی۔  عوام اس اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر اپنے آقاؤں کو ااس طرح لاتیں ماریں گے جس طرح ان کی پولیس والوں نے غریب سمجھ کر چھترول کی تھی۔

حکمرانی کا اندھیرا

یہ اندھیرا وہ ہے جس میں حکمرانوں کو ہر طرف سکھ ہی سکھ نظر آتے ہیں اور ہر وقت سب اچھا ہے کی خبر ملتی رہتی ہے مگر جب یہ اندھیرا چھٹتا ہے تو پھر انہیں موت ہی پناہ دیتی ہے۔ اس اندھیرے میں بیٹھ کر حکمران ہر طرح کی عیاشی کرتے ہیں اور ان کے گناہ پبلک کی نگاہوں سے اوچھل رہتے ہیں۔

“سب سے پہلے پاکستان” کا اندھیرا

یہ اندھیرا ہم پر اس لۓ مسلط کردیا گیا ہے تاکہ جو فکر ہمیں ایک مسلمان کی حيثیت سے دوسرے خطے کے مسلمانوں کی ہوتی ہے اسے ختم کردیا جاۓ۔ لیکن ہم یہ بات بھول جاتے ہیں جب ہم پر آفت آتی ہے یعنی جب کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے زلزے کا اندھیرا ہميں گھیر لیتا ہے تو پھرہم دوسروں سے مدد مانگ کر اس اصول کی نفی اس انداز میں کرتے ہیں کہ امداد دینےوالے اس اصول کو ایک طرف رکھ کر ہماری مدد کرتے ہیں۔ ہمیں اس اندھیرے سے ڈرنا چاہۓ جب دوسرے خطوں کے مسلمان بھی “سب سے پہلے پاکستان” کے اصول کی پیروی کرنا شروع کردیں گے تو پھر کوئی بھی ہمیں اجالا نخشنے نہیں آۓ گا۔

کرپشن کا اندھیرا

ملک کرپشن اور اقربا پروری کے اندھیرے میں اس قدر ڈوبا ہوا ہے کہ حکمرانوں کو غریب کی حق تلفی نظر ہی نہیں آرہی۔رشوت کھلے عام لی جارہی ہے۔ حکومت اپنے چہیتوں کو انعام و اکرام سے نواز رہی ہے اور عوام اس اندھیرے میں اس تباہی کے اصل ذمہ دار کا چہرہ پہچاننے سے قاصر ہیں۔ وہ وقت نہیں بھولنا چاہۓ جب کسی نیک آدمی کے طفیل مساوات کی شمع روشن ہوگی تو پھر کرپٹ حکمرانوں کے چہرے اسی طرح چمکنے شروع ہوجائیں گے جس طرح دوزخ کی آگ کا ایندھن۔

وردی کا اندھیرا

جنرل صدر مشرف کہتے ہیں کہ وردی ان کے جسم پر اچھی لگتی ہے اور وہ وردی اپنی مرضی سے اتاریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اب بھی اندھیرے میں ہی رہ رہے ہیں اور اس اندھیرے میں انہیں عوام کی مرضی نظر نہیں آرہی۔ اس سے پہلے کہ عوام کی مرضی کی قندیل روشن ہوجاۓ صدر صاحب کو اس خود غرضی کے اندھیرے سے باہر نکل آنا چاہۓ۔

بےبسی کا اندھیرا

جب آدمی بے بسی کے اندھیرے ميں دھکے کھا رہا ہو تو پھر اسے خود کشی کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ حکمرانوں کو عوام کی اس بے بسی کی انتہا سے ڈںنا چاہۓ کیونکہ کسی بھی وقت عوام میں حکمرانوں کے احتساب کی کرن پھوٹ سکتی ہے اور وہ حکمرانوں کو ایسے اندھیرے میں دھکیل سکتی ہے جس میں وہ اپنے آپ کو بھی پہچان نہیں پائیں گے۔