ہماری کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا کو پچھلی دفعہ 1995 میں ہرایا تھا اور آسٹریلین کسی ایک ٹيم کیخلاف مسلسل کامبابیوں کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انگلینڈ کی مشہور کرکٹ گراؤنڈ لارڈز میں جاری پہلا ٹیسٹ اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ آسٹریلیا کی ٹيم اپنی دوسری باری میں 8 کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پر 230 رنز پر کھیل رہی ہے اور اس کی برتری 335 رنز ہو چکی ہے۔

پاکستان اگر چاہے تو اب بھی یہ ٹیسٹ جیت سکتا ہے مگر اس کیلیے ضروری ہے کہ وہ محتاط ہو کر کھیلے۔ آفریدی نے جس طرح پہلی اننگز میں ٹی ٹونٹی والی اننگز کھیل کر اپنی وکٹ گنوائی اس سے اسے گریز کرنا ہو گا۔ ہمارے تمام بیٹسمینوں کو چاہیے کہ وہ اننگز شروع کرنے سے پہلے مدثر نظر کی وہ سست ترین اننگز دیکھیں جس میں انہوں نے دو دن کھیل کر سو رنز بنائے تھے۔ اس ننگز سے انہیں پتہ چلے گا کہ وکٹ پر جم کر کس طرح کھیلا جاتا ہے۔

ہمارے خیال میں اگر پاکستان نے دو دن وکٹ پر کھیلنا ہے تو اسے ہر باہر جاتی بال کو چھوڑنا ہو گا۔ وکٹ کے اندر آتی بال کو کراس بیٹ کی بجائے سیدھے بیٹ سے کھیلنا ہو گا۔ اوور پچڈ بالوں کا انتظار کرنا ہو گا۔ ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ اگر بیٹسمین صرف کریز پر رکنے کیلیے کھیلے تو دو دن میں بچاس رنز تو فالتو میں بن جائیں گے۔

ہم مانتے ہیں کہ نئے بیٹسمینوں کیلیے یہ ٹیسٹ بہت مشکل ہے مگر وہ یاد رکھیں زندگی میں کوئی چیز ناممکن نہیں ہوتی۔ چینی کہاوت ہے کہ صبر سب سے بڑا ہتھیار ہے اور یہ انتظار ہی ہے جو ریشم کے درخت کے پتے کو ریشم بناتا ہے۔