جس طرح ساون میں بارش کی جھڑی لگتی ہے اسی طرح ہماری کرکٹ ٹیم جب چاہے وکٹوں کی جھڑی لگا دیتی ہے۔ صبح اچھے بھلے کھیل رہے تھے کہ جونہی ایک کھلاڑی آؤٹ ہوا باقی بھی ایک ایک کر کے پویلین لوٹنے لگے۔ کسی نے کرکٹ انفو پر یہی پشین گوئی کی تھی اور وہ سچ ثاب ہوئی۔ آؤٹ ہونے کی سب سے بری مثال کپتان نے قائم کی۔ پہلی اننگز کی طرح دوسری اننگز میں بھی خان صاحب چھکا لگانے لگے تھے جب کہ اس وقت ضرورت تھی وکٹ پر جمے رہنے کی۔

ہمیں یاد ہے محلے میں جب کوئی کھلاڑی ٹپ ٹپ شروع کر دیتا تھا تو اسے آؤٹ کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ وہ یہی کرتا تھا کہ خطرناک شاٹ نہیں کھیلتا تھا اور وکٹوں میں آنے والی بال کر سیدھے بلے سے روک لیتا تھا۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ اس ٹپ ٹپ کرنے والے پر ایسا غصہ آیا کہ باؤلنگ کرنے والی ٹیم میچ ہی درمیان میں چھوڑ بھاگ جاتی۔ ایک ہمارے کھلاڑی ہیں کہ انہیں ٹھیک سے وکٹ پر کھڑے رہنا بھی نہیں آتا۔

ہمارے بیٹسمینوں سے زیادہ تو آسڑیلین باؤلرز نے رنز بنائے۔ فاسٹ باؤلرز ہمارا کچھ بگاڑ نہ سکے مگر سپنرز نے ہمیں آؤٹ کر دیا۔ حالانکہ ہمارے کھلاڑیوں کو فاسٹ باؤلرز کے مقابلے میں سپنرز کو زیادہ اچھے طریقے سے کھیلنا چاہیے تھا کیونکہ انہیں پاکستان کی سست پچوں پر سپنرز کو زیادہ کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔

آج کی ہار کا تو بہت افسوس ہوا۔ پتہ نہیں کب ہمیں کرکٹ کھیلنی آئے گی اور کب ہم اس کی تکنیک سے واقفیت حاصل کریں گے؟؟؟؟