کچھ پٹھان انتہائی جذباتی ہوتے ہیں اور وہ ہر کام پلک جھپکنے سے پہلے نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاہد آفریدی کا چار سال بعد صرف ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے کے بعد ریٹائر ہونے کا فیصلہ اس کی بہترین مثال ہے۔

اگر شاہد آفریدی بیوقوف نہ ہوتا تو وہ دل کی بجائے دماغ سے کام لیتا اور ہاتھ آئی اس ذمہ داری کو ترقی کی سیڑھی بنا کر ایسی جگہ پہنچ جاتا جہاں کوئی کوئی پہنچتا ہے۔ مگر کیا کریں جذباتی آدمیوں کا یہی مسئلہ ہوتا ہے وہ سوچنے کیلیے وقت نہیں مانگتے اور زندگی کے اہم فیصلے چٹ منگنی پٹ بیاہ کی طرح کر جاتے ہیں۔

اگر انصاف سے دیکھا جائے تو شاہد آفریدی نے اپنی کمزوری کا اعتراف کر کے بہادری کا کام کیا ہے مگر یہ شارٹ کٹ ہے جس کا متبادل اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کیلیے سوچ بچار تھا۔ کمزوریوں پر قابو پانے کیلیے لوگ سو طرح کے جتن کرتے ہیں۔ کوئی ماہر نفسیات سے رجوع کرتا ہے، کوئی یکسوئی سے پریکٹس کرتا ہے تو کوئی چلہ کاٹتا ہے۔ شاہد کو بھی چاہیے تھا کہ وہ کوشش کرتا مگر اس نے جذباتی پن کا مظاہرہ کیا اور ایک چیلنج کا سامنا کرنے سے گریز کیا۔

شاہد کا مسئلہ یہی تھا کہ اس کے مزاج میں تیزی ہے اسی لیے ہم اسے کرکٹر کی بجائے گلی ڈنڈے کا کھلاڑی کہتے آئے ہیں۔ بعد میں اس نے کچھ اننگز دل کی بجائے دماغ کے زور پر کھیل کر ہماری اس رائے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی مگر پھر ہار مان گیا۔