پاکستان کے غیر ترقی یافتہ ہونے کی اصل وجہ ہمارے حکمران اور حزبِ اختلاف دونوں ہیں۔ حکمران اسلۓ کہ ان کی نیتیں ٹھھیک نہیں ہیں اور حزبِ اختلاف اسلۓ کہ وہ اپنی ذمہ داری ٹھیک طرح سے نہیں نبھا رہی۔ دونوں اصل مسائل پر توجہ دینے کی بجاۓ اپنی لیڈریاں چمکانے میں لگے ہوۓ ہیں۔

یہ حکمران اور حزبِ اختلاف والے ایسے کیوں ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں احتساب کا ڈر نہیں ہے۔ جنہیں احتساب کا ڈر تھا وہ حکمرانوں کیساتھ جاملے۔ لیکن یہاں پر احتساب کا مطلب حکومتی نہیں بلکہ عوامی احتساب ہے۔ ہمارے حکمران عوام کے کندھوں پر بیٹھ کر پورے ملک کو بیچ دیں لوگوں کو کوئی فکر نہیں۔ حزبِ اختلاف لوگوں کے اصل مسائل قومی اسمبلی اور سینٹ کے پلیٹ فارم پر زیرِ بحث لانے کی بجاۓ ادھر ادھر کی ہانکتے رہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہماری نظر میں تو حزبِ اختلاف جاہلوں کا ایک ٹولہ ہے جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ عوام کو سڑکوں پر لانے کیلۓ ان کے مسائل کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔ عوام سڑکوں پر اب نہ مزہب کیلۓ آئیں گے اور نہ قومی مفاد کیلۓ بلکہ وہ جب بھی سڑکوں پر آئیں گے اپنے پیٹ کیلۓ۔ حزبِ اختلاف یہ گر آزما کر دیکھ لے اور اگر عوام پٹرول اور روزمرزہ اشیا کی مہنگائی اور پولیس کے غلط رویے، ناانصافی اور ڈکیتیوں کے نام پر سڑکوں پر نہ آۓ تو پھر وہ عوام نہیں بےجان مجسمے ہوں گے۔

ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ٹولے کو عوام نے ہی چنا اور اگلے انتخابات میں دوبارہ منتخب کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بحیثیت مجموعی پاکستانی اپنی عقل سے نہیں بلکہ چوہدریوں، وڈیروں اور پیروں کی عقل سے کام لیتے ہیں۔ وہ اپنی عقل سے اسلۓ کام نہیں لیتے کہ ان کو اس کی تربیت ہی نہیں ملی۔ اس تربیت کیلۓ عوام کا سکول جانا ضروری ہے۔ اگر بیس فیصد لوگ سکول جائیں گے تو پھر اسی فیصد کی اکثریت غلط فیصلے کرکے گندے انڈوں کو پارلیمنٹ میں نہیں بھیجے گی تو اور کیا کرے گی۔

اسلۓ ضروری ہے کہ حزبِ اختلاف سب سے پہلے لوگوں کے شعور کو بڑھانے کیلۓ ان کی تعلیم کا بندوبست کرے۔ جماعت اسلامی کی تحریک اب تک اسی وجہ سے منظم ہے کہ وہ اپنی آئندہ نسل کو سکول کے زمانے سے ہی ٹریننگ دینا شروع کردیتی ہے۔ پاکستان میں تعلیم بڑھ رہی ہے مگر مہنگی ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کی رسائی تک نہیں ہے۔ جتنی تعلیم بڑھ رہی ہے اتنی ہی آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم کا تناسب وہیں پر ہے۔

اگر سارے پاکستانی پڑھے لکھے ہوتے تو فوجی حکومت کا کب سےبستر گول ہوگیا ہوتا۔ کرپشن نہ ہونے کے برابر ہوتی ۔ پولیس والے ہرکسی کی پہنچ میں ہوتے اور جج یوں رشوتیں لے کر مقدمات کو سالوں تک نہ لٹکاۓ رکھتے۔

 پاکستانیوں کا شعور جاگ رہا ہے بیشک رفتار سست ہے۔ اگر یہی رفتار بھی قائم رہی تو انشااللہ ایک دن ضرور لوگ اپنا حق کھلِ عام مانگا کریں گے اور حکمرانوں کیلۓ عوام کو آج کی طرح نظر انداز کرنا ناممکن ہوجاۓ گا۔