سیلاب نے ملک کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ پورے کا پورا صنعتی ڈھناچہ تباہ ہو چکا ہے۔ ریفائنریز، کھاد فیکٹریاں سمیت بڑے بڑے صنعتی کارخانے پانی میں ڈوب چکے ہیں۔ کوئی انہیں خدا کا عذاب قرار دے رہا ہے، کوئی انڈیا کا حملہ اور کوئی سازش کہتا ہے۔ کرپٹ حکمرانوں کو آخرکار اپنی حیثیت کا اندازہ ہونے لگا ہے جب عوام نے ان کےہاتھوں امدادی سامان تقسیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بقول بلاگر اجمل صاحب زلزلہ زدگان کیلیے امداد کے ڈھیر لگا دینے والے آج جیلوں میں پڑے اپنی بے بسی پر رو رہے ہیں۔

جس طرح فقیروں کو شکایت ہے کہ اب لوگ ان کے معذور بچوں کی حالت دیکھ کر بھی بھیک نہیں دیتے اسی طرح ہماری حکومت کو بھی شکایت ہے کہ لوگ سیلاب زدگان کی امداد نہیں کر رہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک پچھلے دو سالوں میں ہوئی مہنگائی نے لوگوں میں اتنی سکت ہی نہیں چھوڑی کہ وہ کچھ رقم خیرات کر سکیں۔ دو حکومت کی کرپشن کے قصے اتنے زیادہ زبان زد عام ہو چکے ہیں کہ لوگوں کا اعتبار اپنی حکومت پر سے اٹھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم سیلاب فنڈ کے سربراہ کیلیے ایسے ایسے شریف لوگوں کے نام لے رہے ہیں جن کی ایمانداری پر لوگوں کو یقین آ جائے اور لوگ مدد کیلیے آگے بڑھیں۔ کاش  لوگوں کی اس بے اعتمادی کی وجہ سے ہمارے حکمرانوں کی غیرت جاگ جاتی اور وہ حکومت چھوڑ کر گھر چلے جاتے ہیں٫ مگر وہ بے شرم ہیں ان کیلیے یہی موقع ہے منافع کمانے کا اور اپنے گھر بھرنے کا۔ لعنت ہے ایسی کمائی پر اور ایسے حرام مال پر۔