پچھلے کچھ عرصے سے حکومت میں شامل اقلیتی جماعتوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ حکومت میں رہ کر حکومت پر تنقید کر رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ اس تنقید کا حکومت پر اثر ہوتا ہے اور نہ یہ پارٹنر حکومت سے الگ ہوتے ہیں۔ اس جرم میں مسلم لیگ ن، جمیعت العلمائے اسلام، اے این پی اور ایم کیو ایم پیش پیش رہی ہیں۔ حکومت کی مخالفت پہلے حزب اختلاف کیا کرتی تھی مگر جب سے سیاستدانوں کا آپس میں ایکے کی وجہ سے حزب اختلاف کا وجود ختم ہوا ہے حکومتی کولیشن میں شامل جماعتیں یہ فریضہ انجام دینے لگی ہیں۔

مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت میں پی پی پی بھی شامل ہے مگر پی پی پی کے گورنر کا پنجاب حکومت کیساتھ پنگا پڑا ہی رہتا ہے۔

اے این پی وفاقی حکومت کا حصہ ہے مگر کل ہی ان کے صوبائی گورنر نے کہا ہے کہ ابھی تک انہیں وفاقی حکومت سے سیلاب فنڈ سے ایک پائی بھی نہیں ملی۔

مسلم لیگ ن وفاقی حکومت میں تو شامل نہیں مگر وہ اس کی مخالفت بھی نہیں کر رہی۔ اس کے باوجود نواز شریف اور صدر زرداری کے درمیان مخالفانہ مکالمات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔

ایم کیو ایم جب پرویز مشرف کی حکومت میں شامل تھی تو میڈیا پر ہونے والے ظلم پر بیان داغ دیتی تھی۔ اب الطاف بھائی نے جرنیلوں کو مخاطب کر کے جاگیردار سیاستدانوں کا کورٹ مارشل کرنے کی جو بات کی ہے وہ پی پی پی کو ناگوار نہیں گزری بلکہ ایک وفاقی وزیر نے صرف اتنا کہا ہے کہ الطاف حسین کو جرنیلوں کی کرپشن کی بات بھی کرنی چاہیے تھی۔

یہ تو سراسر فوج کو مارشل لا کی دعوت دی جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے ہے الطاف بھائی جوش جذبات میں ایسی بات کر گئے ہوں اور بعد میں بیان دے دیں کہ ان کی بات کا مطلب سیاق و سباق سے ہٹ کر نکالا گیا ہے۔ جب تک الطاف حسین حکومت کا حصہ ہیں ان کی یہ تقریر مولے جٹ کی بڑھک کے سوا کچھ نہیں۔

حیرانی اس بات پر ہے کہ الطاف بھائی جاگیردار سیاستدانوں کی حکومت کا حصہ بھی ہیں یعنی ان کے جرائم میں برابر کے شریک بھی ہیں اور انہی کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔ بھئی اگر جاگیرداروں کی حکومت سے اختلاف ہے تو پھر کولیشن سے الگ ہو جاؤ۔ مگر نہیں جس درخت کا پھل چکھنا اسی کی جڑیں کھوکھلی کرنا اب حکومت میں شامل اقلیتی جماعتوں کا شغل بن چکا ہے۔ خدا جانے اس کے پیچھے کیا راز ہے؟