ايک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حکومتي اراکين نے شراب پر سے پابندي ہٹانے کي مہم کا آغاز کر ديا ہے۔ اسمبلي ميں بحث کے دوران وفاقي وزير پارليماني امور اور وزير بہبود آبادي نے کہا کہ شراب پر پابندي کي وجہ سے ہيروئين کا نشہ عام ہوا ہے اسلئے بھٹو دور ميں لگائي گئ شراب پر پابندي ختم کرديني چاہيے۔ انہوں نے يہ بھي کہا کہ شراب پر پابندي کے باوجود لوگ شراب پيتے ہيں جن ميں کئي ارکان اسمبلي بھي شامل ہيں۔

يہ مہم اب حدود آرڈينينس ميں ترميم کي مہم کي طرح ميڈيا پر بھي شروع کردي گئ ہے۔ آج ہم نے آري ون ورلڈ پر بھي اياز مير کي ميزباني ميں ايک مباحثہ ديکھا۔ اس مباحثے ميں اياز مير جيسا پڑھا لکھا آدمي بھي يہ استدلال دے رہا تھا کہ چونکہ شراب سمگل کي جارہي ہے اور پابندي کے باوجود لوگ شراب پي رہے ہيں بلکہ مہنگي پي رہے ہيں اسلئے اس پر پابندي بے کار ہے۔ اس طرح وہ يہ ثابت کرنے کي کوشش کررہے تھے کہ شراب پر پابندي کا کوئي فائدہ نہيں۔ ايک موقع پر تو وہ مباحثے ميں شريک مولانا کے قرآني آيات کے ترجمہ کے جواب ميں يہاں تک کہ گئے کہ اس کا مطلب ہے کہ قرآن کي مندرجہ ذيل آيت ميں شراپ کو خبيث کہا گيا ہے اور اس کے استعمال سے منع کيا گيا ہے مگر واضح طور پر حرام قرار نہيں ديا گيا جسطرح سور کے حرام ہونے کا حکم ہے۔ اس طرح وہ يہ ثابت کرنے کي کوشش کررہے تھے کہ شراب کو برا کہا گيا ہے مگر حرام نہيں کہا گيا۔

قرآن ميں شراب پر پابندي کے بارے ميں جو آخري آيت نازل ہوئي اس کا ترجمہ يہ ہے۔

“اے ايمان والو، بيشک شراب اور جوا اور [عبادت کيلۓ] نصب کئے گئے بت اور [قسمت معلوم کرنے کے لئے] فال کے تير [سب] ناپاک شيطاني کام ہيں۔ سو تم ان سے [مکمل] پرہيز کرو تاکہ تم فلاح پاؤ”

اس آيت کي رو سے اس بات ميں تو کوئي شک نہيں رہ جاتا کہ شراب سے مکمل پرہيز کا ذکر ہے يعني مسلمان کيلۓ حرام ہے۔ 

شراب عام کرنے کے حق ميں ايسے ايسے بھونڈے جواز تلاش کئے جارہے ہيں جن کي کوئي منطق نظر نہيں آتي۔ يہ کہنا کہ شراب پر پابندي کي وجہ سے ہيروئين کا نشہ عام ہوگيا ہے۔ ہيروئين کے عام ہونے کي وجہ حکومتي نااہلي ہے جو اس کي نقل و حرکت پر پابندي نہيں لگا سکي۔ ليکن اس نااہلي کا توڑ شراب عام کرکے کرنا اس سے بھي بڑي نااہلي ہے۔ يہ تو وہي ہوا کہ جس طرح حکومت اب تک مٹی کے تيل کي قيمت ميں اضافہ پٹرول کي قيمت سے زيادہ کرتي رہي ہے تاکہ مٹي کے تيل اور پٹرول کي قيمت ميں فرق کم ہوجائے اور لوگ پٹرول ميں ملاوٹ نہ کرسکيں۔ اب پٹرول ميں ملاوٹ کو روکنے اور ملاوٹ کرنے والوں کو سزا دينے کي بجائے ايسا بھونڈا طريقہ ڈھونڈا گيا جس کي وجہ سے کروڑوں غريبوں کيلۓ دو وقت کي روٹي پکانا بھي مشکل ہوگيا۔

بھٹو خود بھي شراب پيتا تھا اور اس نے شراب پر پابندي سياسي دباؤ کي وجہ سے لگائي مگر اس کا يہ اقدام غلط نہيں تھا۔ اب اس کے اس اقدام کوسياسي اور ذاتي قرار ديتے ہوۓ غلط قرار دينا قرآن ميں درج خدا کے حکم کي حکم عدولي ہے۔ مانا کہ ايک طرف  اگرپاکستان کا امير طبقہ، حکومتي ارکان اور فوجي قيادت شراب پيتي ہے اور دوسري طرف غريب لوگ سستا نشہ کرتے ہيں ليکن اس کا يہ مطلب نہيں کہ اميروں کي سہولت کيلۓ ايک برائي جو اسلام ميں حرام قرار دي گئ ہے اسے عام کرديا جاۓ۔ غريب اگر ہيروئين پيتا ہے تو اس کا مطلب يہ نہيں کہ اسے شراب يا کوئي دوسرا نشہ دستياب نہيں بلکہ وہ ہيروئين پيتا ہے تاکہ حکومتي نااہلي کي وجہ سے وہ جن مشکلات کا شکار ہے ان سے چھٹکارا پاسکے۔ نشہ وہي آدمي کرے گا جو معاشرتي حقيقتوں کا سامنے کرنے کي ہمت نہيں رکھتا ہوگا اور بزدل ہونے کي وجہ سے نشہ کرکے وقتي طور پر اپنے آپ کو خوشحال سمجھنے لگے گا۔

جن ملکوں ميں شراب عام ہے کيا ان ملکوں میں ہيروئين کے نشے کے عادي افراد کي تعداد ميں اضافہ نہيں ہوا۔ کيا ان ملکوں ميں دوسرے جرائم کم ہوگئے۔ اعداد و شمار بتاتے ہيں کہ يہ شراب ہي ہے جو سب سے زيادہ ٹريفک حادثات کا سبب بنتي ہے۔ ابھي آج کے جنگ ميں ايک خبر چھپي ہے کہ کراچي ميں ايک تيز رفتار گاڑي نے دو افراد کو کچل ديا اور گاڑي کے الٹنے کي وجہ سے اس ميں سوار ايک لڑکي اور تين مرد بھي زخمي ہوگئے۔ گاڑي کي تلاشي پر شراب کي بوتليں برآمد ہوئيں اور اس حادثے کي وجہ شراب پي کر گاڑي چلانا قرار دي گئ۔ اب بيوقوف لوگ يہ بھي کہ سکتے ہيں کہ اس حادثے کي وجہ شراب نہيں بلکہ شراب پي کر گاڑي چلانا تھي۔ 

ايک ہرائي کا تدارک دوسري برائي سے نہيں ہوسکتا اور اگر ايک برائي پر کنٹرول نہيں رہا تو اسے جائز بھي قرار نہيں ديا جاسکتا۔ يہ حقيقت ہے کہ پاکستان ميں شراب سمگل ہوتي ہے، غريب ديسي شراب بھي پيتے ہيں، شراب پينے والے لوگوں کي تعداد بڑھ رہي ہے، دوسرے نشے بھي عام ہيں مگر ان برائيوں کے عام ہونے کي وجہ سے شراب کو حلال قرار دے کر عام نہيں کيا جاسکتا۔ يہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ہر معاشرتي برائي کو ختم کرے ناں کہ برائي کو ختم کرنے کي بجاۓ اسے جائز قرار دے دے۔ اگر يہي اصول حکومت نے دوسري برائيوں کے بارے ميں بھي اپنانے کي کوشش کي تو پھر معاشرہ جہنم بن جاۓ گا۔ اب اگر حکومت رشوت پر قابو نہيں پاسکتي تو کيا اسے ليگل قرار دے دينا چاہئے۔ اگر زناہ  معاشرے ميں عام ہورہا ہے اور کنجروں کي تعداد ملک ميں بڑھ رہي ہے تو کيا انہيں قانوني جواز فراہم کرکے عام کردينا چاہئے۔

سيدھي سي بات ہے کہ برائي کو روکنے کيلئے حکومت کو سخت قوانين بنانے چاہئيں اور پھر ان پر سختي سے عمل بھي کروانا چاہئے ناں کہ ان تمام برائيوں کي کھلي چھٹي دے دي جاۓ۔

اب ديکھيں حکومت نے شراب عام کرنے کي مہم کا آغاز کرہي ديا ہے تو اس ميں کتني اور کب کامياب ہوتي ہے۔ ہماري نظر ميں پاکستاني معاشرہ اب تک شرابي کو قبول کرنے کيلۓ تيار نہيں ہے اور حکومت شراب پر سے پابندي اٹھانے کا رسک وقتي طور پر نہيں لے گي۔

آپ کا کيا خيال ہے؟ کيا واقعي شراب کي سمگلنگ روکنے،  چھپ چھپ کر شراب پينے اور شراب کي عدم دستيابي کي وجہ سے ہيرائين پينے والوں کي سہولت کيلۓ شراب پر سے پابندي اٹھا ديني چاہئے؟