پاکستان میں بسنت کا تہوار اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس تہوار میں لوگ مرتے بھی ہیں اور زخمی بھی ہوتے ہیں۔ اس قسم کے تہوار اب جدید دنیا میں متروک ہیں کیونکہ جدید دنیا میں ایک آدمی کی موت بھی حکومتوں کو ہلا کر کررکہھ ریتی ہے۔ لیکن ایک پاکستانی حکومت ہے جو معصوموں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے امیروں کیلۓ اسی طرح خوشیوں کا سامان فراہم کرتی ہے جس طرح جاہلیت کےدور میں حکمران پہلوانوں کو شیر کے پنجرے میں ڈال کر شیر کے ہاتھون اس کی موت پر خوش ہوا کرتے تھے۔

صرف ایک دن میں لاہور میں درجنوں ہلاکتوں اور سیکنڑوں زخمیوں کا حکومت پر صرف اتنا اثر ہوا کہ اس نے فیصل آباد، راولپنڈی اور پنجاب کےدوسرے بڑے شہروں میں بسنت کا تہوار منانے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ حکومت کو معلوم بھی تھا کہ پچھلے کئی سالوں سے اس تہوار کی نذر کتنی جانیں ضائع ہوچکی ہیں اور کتنے گھرانے اجڑ چکے ہیں مگر اس کے باوجود حکومت نے سپریم کورٹ کی پابندی کی بھی پرواہ نہ کی اور ایک دفعہ پھر بسنت کی شکل میں خونی ڈرامہ رچانے کی اجازت دے دی۔ بسنت کے دن دھاتی ڈور استعمال کرکے اور آزادنہ فائرنگ سے قانون کو پاؤں تلے روندا گیا۔ انتظامیہ امیروں اور حکومتی اہلکاروں کی نگرانی پر مامور رہی اور غریب دھاتی ڈور اور فائرنگ کی بھینٹ چڑھتے رہے۔ پولیس نے اپنی بساط کے مطابق جرائم کو روکنے کی حتی الوسع کوشش کی مگر وہ لاہوریوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔

اب بھی وقت ہے کہ عوام کی حفاظت کی خاطر اگلی بسنت کی منصوبہ بندی ابھی سے شروع کردی جاۓ۔ اگر حکومت حادثات سے محفوظ بسنت منانے کی کوشش میں واقعی سنجیدہ ہے تو پھر مندرجہ ذیل تجاویز پر بھی غور کرسکتی ہے۔

1. بہت پہلے پتنگ بازی کے شوقین پتنگ بازی کا ٹورنامنٹ کرایا کرتے تھے اور اس کیلۓ وہ ایک دن باہر کھلے میدان میں جمع ہوتے اور بو کاٹے کا کھیل کھیلتے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بھی بسنت کے تہوار کا بندوبست دریائے راوی کے کنارے کھلی جگہ پر کرے جہاں لوگ کھل کر پتنگ بازی کا شوق پورا کرسکیں۔

2. دھاتی تار کے استعمال پر مکمل پابندی برقرار رکھی جائے بلکہ اس کی درآمد پر بھی پابندی لگا دی جاۓ۔ اگر حکومت اس خلاف ورزی پر سختی سے عمل کرتے ہوۓ چند مجرموں کو سزا دلوانے میں کامیاب ہوگئ تو دوسرے لوگ بھی ڈر کر دھاتی ڈور کے استعمال سے پرہیز کریں گے۔

3. دھاتی ڈور کے نقصانات سے خصوصی طور پر ہر سکول میں طالبعلموں کو آگاہ کیا جائے اور مثالوں سے ثابت کیا جاۓ کہ دھاتی ڈور کتنی مہلک ہے۔

4. میڈیا پر دھاتی ڈور کے استعمال کے نقصانات کی آگاہی کیلۓ اسی طرح مہم چلائی جاۓ جس طرح حکومت نے حدود آرڈیننس میں تبدیلی کیلۓ راۓ عامہ ہموار کرنے کیلۓ چلائی

5. ہم تو یہ تجویز کریں گے کہ بسنت کے تہوار کو ہندوانہ رسم سمجھ کر ترک کردیا جاۓ اور اس کے متبادل کے طور پر کسی اور دن پتنگ بازی یا بہار کا تہوار منایا جاۓ۔

6. جو لوگ حفاظتنی انتظامات کے باوجود اس تہوار کی بھینٹ چڑھیں ان کے نقصانات کے ازالے کیلۓ رقم اکٹھی کرنے کیلۓ پتنگ بازی کے سازوسامان پر نیا ٹیکس متعارف کرایا جاۓ

اگر آپ لوگوں کے پاس بھی کوئی تجویز ہو تو براہ مہربانی یہاں پر اس امید میں درج کردیجۓ کہ شاید کسی دن حکومت کے کسی کارندے کی اس پر نظر پڑجاۓ۔